رپورٹ:(عرفان اطہر منگی)پاکستان میں صحافیوں پر خبر کے نام پر جبر کیا جاتا ہے۔ مالکان کی فرمائش پر مارکیٹنگ اور حکومت کے ساتھ اچھے روابطہ استوار کرنے کےلیے خبر کو مختلف زاویے دیئے جاتےہیں۔ جس میں حقائق اور واقعات کے کچھ پہلوئوں کو دانستہ نظر انداز کیا جاتاہے۔بعض خبریں چلانے پر صحافیوں کو بااثر افراد اور کچھ قوتوں کی جانب سے دھمکیوں اور دبائو کا بھی سامنا کرنا پڑتاہے۔
آئے روز پاکستان میں صحافیوں پر حملوں اور دھمکیوں کے واقعات میں 60 فیصد سے ذیادہ اضافہ ہوا ۔
میڈیا کو مانیٹرکرنے والے ادارے فریڈم نیٹ ورک کی یکم مئی 2023 کی جاری کردہ رپورٹ کےمطابق گزشتہ 11 ماہ میں صحافیوں پر حملوں اور دھمکیوں کے140 واقعات رونما ہوئے۔
رپورٹ کے تحت اسلام آباد میں 56، پنجاب میں 35، اور سندھ میں 23 کیسز سامنے آئے ہیں۔
یہ مسئلہ صوبہ سندھ کے مختلف اضلاع میں بھی پایا جاتاہے جہاں پر صحافیوں کو زدوکوب کیا جاتا ہے اور ان کے اوپر جھوٹے مقدمات درج کئے جاتے ہیں۔ جس کی تصدیق پولیس حکام کی جانب سے جاری تحقیقاتی نوٹس کے ذریعے خبروں میں آتی ہیں۔
اسرار چانڈیو کا تعلق سندھ کے ضلع شکارپور سے ہے۔ اسرار روزنامہ کوشش اور کے ٹی این نیوز ٹی وی چینل کےلیے کام کرتے ہیں۔انہیں بھی پولیس کے سخت رویے پر اعتراض ہے ۔
انیس اگست 2023 کو رات کے گیارہ بجے جیکب آباد پولیس نے اسرار چانڈیو کو زبردستی حراست میں لے لیتی ہےاور انہیں خوب زدوکوب کیا جاتا ہے۔
دو روز قبل انہوں نے خبر دی تھی کے شکارپور سے اغوا کئےگئے افراد کو پولیس بازیاب کرانے میں ناکام رہی اور دو ماہ سے سات سالہ بچے نوید لاشاری کو پولیس تاحال بازیاب نہ کراسکی ایسے ہی جیکب آباد سے 12 سالہ حامد چانڈیو کو بھی اغواکرلیا گیا۔ پولیس مغویوں کو بازیاب کرانے میں مکمل طورپر ناکام ہوچکی ہے۔
اس خبر پر پولیس طیش میں آگئی اور انہوں نے اسرار چانڈیو کو جیکب آباد سے گرفتار کرکے بلوچستان پولیس کے حوالے کرکے ان کے اوپر دس کلو چرس کا جھوٹا کیس بنادیا۔ ان سے پولیس نےان کے دوموبائل فون، 43 ہزارنقدی اور موٹرسائیکل چھیننی ۔ انہیں بلوچستان پولیس کے حوالے اس لیے کیا گیا کہ یہ معلوم نہ ہو کہ علاقے کی پولیس نے کارروائی کی ہے۔ ایف آئی آر میں کیس بنایا گیا کہ یہ موٹر سائیکل پر بلوچستان سے سندھ چرس منتقل کررہے تھے۔ایف آئی آر سرکاری مدعیت میں درج کی گئی۔ جس میں چرس اسمگلنگ کا کیس بنایا گیا ۔19 اگست 2023 کو ایف آئی درج کی گئی ۔
بعد میں جب صحافی برادری نے احتجاج کیا اس پر آئی جی بلوچستان عبدالخالق شیخ نے20 اگست 2023 واقعے کا نوٹس لیا اور صاف اور شفاف تحقیقات کا حکم دےدیا اور ڈی-آئی-جی سبی علی شیر جھکرانی کو تحقیقات کا حکم دیا۔ تحقیقات میں اسرارچانڈیو بے قصور قرار پائے۔ جس پر ایس-ایچ-او نے ڈی-آئی-جی کو بتایا کہ کس کے کہنے پر اٹھایا اور یہ ملوث نہیں تھے۔ لیکن تاحال انہیں موبائل فون ، نقدی اور موٹر سائیکل فراہم نہیں کی گئی لیکن ایک بار پھر ان کا بیان قلمبند کیاگیا ہے۔ اس پر بلوچستان پولیس سے موقف لینے کی کوشش کی گئی توانہوں نے موقف دینے سے انکار کردیا ۔
۔صرف اسرار چانڈیو ہی نہیں سندھ میں آئے روز کتنے صحافیوں کو دن دہاڑے قتل کیا جاتاہے،دھمکیاں دی جاتی ہیں اور ذہنی کوفت میں رکھاجاتا ہے۔اسرار چانڈیو کا کہناہے کہ” سچ کی قیمت اس قدر مشکل ہوتی ہے کہ جینا دو بھر ہوجاتاہے”۔
عاشق دایو جیکب آباد میں دو دہائیوں سے صحافت کر رہے ہیں انکا کہناہےکہ “پولیس کےخلاف خبریں چلانے کا انجام بہت براہوتاہے۔ جھوٹے مقدمے بنائے جاتےہیں۔ پولیس کے خلاف میں نے خبر چلائی تومجھ پر 27 نومبر 2022کو ایف آئی آر درج کی گئی کیس سرکاری مدعیت میں درج کیاگیا لیکن عدالت میں ثبوت پیش نہ کرسکیں کہ مجھ سے کوئی نشہ آور چیز برآمد ہوئی ہے۔ جس سے میں بری ہوگیا” ۔
پولیس افسر سہائے عزیز کہتی ہیں کہ” ہر محکمے میں اچھے اور برے لوگ ہوتےہیں لیکن آپ اس میں ایک چیز نوٹ کریں جب بھی کوئی نوٹس لیا جاتاہے تو پولیس حکام ہی لیتےہیں اور وہ پولیس افسر پولیس کا ہی حصہ ہوتاہے جو کسی ذیادتی یا ناخوشگوار واقعےکی تحقیقات کا حکم دیتاہے۔ واقعہ کوئی بھی ہو اس کے تمام پہلوئوں کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے کہ غلطی اورکوتاہی آخرکہاں پر ہے”۔
میڈیا اہلکاروں کی گرفتاری اور قید
سال 2022میں میڈیا اہلکاروں کی گرفتاری کو ڈرانے اور ریاست کی رٹ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک طریقہ کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ پاکستان میں میڈیا کی حفاظت اور آزادی صحافت کے عالمی دن کو یادگار منانے کے لیے پاکستان پریس فاوٗنڈیشن (پی-پی-ایف) نے رپورٹ مرتب کی ہے۔رپورٹ جنوری2019سے اپریل2020کے دوران پاکستان میں صحافی بڑھتی ہوئی پابندیوں میں اپنی ذمہ داریا ں نبھاتے رہے ہیں کے عنوان سے مرتب کی گئی ہے۔اس رپورٹ میں صحافیوں کی کم از کم پانچ گرفتاریوں کی دستاویز مرتب کیں ہیں۔
مزید برآں ، ایک صحافی کو جیل بھیج دیا گیا اور پھر رہا کیا گیا اور جنگ جیو میڈیا گروپ کے چیف ایڈیٹر ، میر شکیل الرحمن کو پریس کی آزادی پر تشویش کا اظہار کرنے پر گرفتار کیا گیا۔
ڈان کے مطابق 27 مئی کو خیبر نیوز ٹیلی ویژن چینل کے ایک رپورٹر ، گوہر وزیر کو ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ کا انٹرویو لینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ۔ اردو زبان کے روزنامہ نئی بات کے ڈسٹرکٹ نیوز ڈیسک کے ایڈیٹر ، 11 نومبر 2018نصر اللہ چوہدری کو کو افغان جہاد اور پنجابی طالبان کے بارے میں جرائد اور کتابچے رکھنے کے الزام میں کراچی سے گرفتار کیا گیا تھامیر شکیل الرحمن کی گرفتار شاید پچھلے سال میں میڈیا اہلکاروں کی گرفتاری میں سب سے ہائی پروفائل کیس جنگ اور جیو میڈیا گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمن کا تھا جنھیں 12 مارچ 2020 کو گرفتار کیا گیا انہیں غلط خبریں چلانے پر گرفتار کیا گیا تھا ۔ میر شکیل الرحمان نے میڈیا سے اس وقت بات کرتے ہوئے کہاتھاکہ بھول جائے صحاف کو میں اپنا کاروباری نقصان نہیں کرونگا ۔
سینئر تجزیہ کار ہمسفر گاڈھی کہتےہیں کہ “مالکان ادارے اپنے مرضی سے چلاتے ہیں اس میں کسی قسم کے نظریات یا اصول نہیں ہوتےہیں صرف لاگت دیکھی جاتی ہے کہ ہم نے چینل ، اخبار پر کتنی لاگت کی ہے اس کے بعد ا س سے دوگنا کمایا جاتاہے بیشتر مالکان تو ایسے ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ نیوز ہےکیا ۔ بس بزنس کے طور پر اس کاروبار کو اپنا رکھاہے۔ صحافیوں کو دھمکیاں اور ہراساں کیے جانے کے واقعات صحافیوں کو دھمکانے اور خاموش کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ان کو دھمکیاں دی جائیں۔ یہ صحافی مستقل خوف کی کیفیت میں کام کرتے ہیں۔ دوسری صورتوں میں اگرچہ انھیں زبانی دھمکیاں نہیں دی جاتی ہیں لیکن صحافیوں کو آن لائن اور ذاتی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے”۔
جنوری 2019 اور اپریل 2020 کے درمیان ، پی پی ایف نے کم از کم 17 ایسے واقعات ریکارڈ کیے جہاں میڈیا میں کام کرنےوالوں کوکام کی وجہ سے دھمکی دی گئی یا ہراساں کیا گیا۔
سینئیر صحافی باقر سجاد نے بتایا کہ “12 جون 2019 کو جب نیں برٹش ہائی کمیشن کے سفارتکاروں سے ملاقات کے بعد واپس جا رہا تھا تو میرا سامنا بہت ہی نچلی سطح کے لوگوں سے ہوا اور میں نے اس بارے مین ٹویٹ بھی کیا”۔
انہوں نے ٹویٹر پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ “اس کے بعد لوگ مجھے ساتھ لے جانا چاہتے تھے ، میں نے مزاحمت کی۔ حقیقت میں ان میں سے ایک نے میری کار کی اگنیشن سے چابیاں کھینچیں”۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل ساؤتھ ایشیاء نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا: ”صحافت جرم نہیں ہے اور صحافیوں کے ساتھ مجرموں کی طرح برتاؤ نہیں کیا جانا چاہئے”۔
پاکستانی صحافیوں کو آزادانہ اور بغیر کسی خوف کے اپنا کام کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ صحافیوں دھمکانے ، ہراساں کرنے اور ان پر تشدد بند کرنا چاہئے۔
فیضان جلیس کہتےہیں کہ” اگر طاقت کو غلط استعمال نہ کیا جائے تو صحافیوں کے زدوکوب کے واقعات رونما نہ ہو۔ پولیس یہ سمجھتی ہے کہ شاید یہ طاقت لکھنے یا بولنے والوں کے خلاف استمعال کرنی ہے جبکہ یہ طقت ملزمان کے خلاف استعمال کرنی ہوتی ہے”۔
صحافیوں کو آن لائن دھمکیوں کے اہم واقعات
صحافیوں کو آن لائن دی جانے والی دھمکیاں صحافی اکثر اوقات آن لائن کردار کشی کے تہمات کا اور دھمکیوں کانشانہ بنتے رہتے ہیں۔
صحافیوں کی ساکھ خراب کرنے کی اس طرح کی حرکات اکثر اوقات ان کی زندگی کے لیے خطرات کا باعث بنتی ہیں۔
دی نیشن کی رپورٹ کے مطابق22مارچ 2019کو دی کوائلیشن فار ویمن ان جرنلزم نے اینکر پرسن غریدہ فاروقی کے خلاف مسلسل آن لائن مہم پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
رپورٹ کے مطابق فاروقی کونیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ حملے پر ایک ٹویٹ پر گالم گلوچ کا نشانہ بنایاگیا۔
نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے سینیر صحافی فاروقی صاحب کہناتھاکہ پہلے پہل ان کی تذلیل کی گئی لیکن پھر یہ زیادہ خطرناک ہوگیا۔ “ مجھے جنسی ہراساں کیاگیا،گالیاں،بے ہودہ الزامات اورمیری کردار کشی کی گئی لیکن اس میں سب سے زیادہ برا یہ تھاکہ مجھے مارنے کی دھمکی دی گئی“۔ آن لائن دھمکیوں کے ایک اور واقعے میں اپریل 2019میں رپورٹ ہوا کہ ملک میں کئی صحافیوں کے خالف کردار کشی کی مہم چلتی رہیں۔ ڈان کی رپورٹ کے مطابق،ماروی سرمد،مبشر زیدی اور عمر چیمہ کو ٹویٹر پر بد ترین ہیش ٹیگ کا نشانہ بنایاگیا۔اس کے علاوہ سات صحافی ہراسانی اور ہرزہ سرائی کا نشانہ بنے۔
2 فروری2022 میں دی کوائلیشن فار ویمن ان جرنلزم نے عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ میں خواتین صحافیوں کو نشانہ بنانے کی مذمت کی۔ایک اعلامیے میں ان کاکہنا تھا کہ “کئی خواتین صحافیوں کو انتہائی ہتک اور ہراسانی کاسامنا کرنا پڑا ہے وہ چاہے کام کرتے ہوئے ہو یا آن لائن ہو“۔
شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کو کبھی خبر کی تصدیق پر کبھی خبر کے ذرائع پر ذہنی کوفت کا شکار ہونا پڑتاہے تو کبھی خبر کے تمام لوازمات نکال کر کسی کو خوش کرنےکےلیے وہ خبر نشر کی جاتی ہے۔پاکستان کے مختلف اداروں میں کام کرنے والے صحافیوں کو کسی نہ کسی کوفت میں مبتلا کیا جاتا رہتاہے۔ کسی کو بے نقاب کرنے کے چکر میں کبھی خود ہی کسی کی گولی کا نشانہ بن جاتے ہیں تو کبھی سارےکرپشن کے راز دریافت کرنے کے باجود بھی یہ کہا جاتاہے کہ یہ خبر نہیں چل سکتی ۔ مالکان ، ادارتی پالیسی ، خبر کا اینگل اور مختلف پریشر صحافیوں کو بےیقینی کی کیفت میں مبتلا رکھتےہیں۔
گزشتہ چند سالوں سے پاکستان اور خاص طور پر سندھ میں صحافیوں پر حملوں کے واقعات میں تیزی آئی ہےصحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک ایسی قانون سازی کی ضرورت تھی جس کے نتیجے میں صحافیوں کو مکمل تحفظ کا احساس ہوسکے۔ پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے دو بل پیش کئے گئے ہیں وفاقی حکومت کی جانب سے تیار کردہ بل کو پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفینشلز بل 2020 ۔سندھ اسمبلی میں پیش کئےگئے بل کو دی سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹشنرز بل 2021 کا نام دیا گیا ہے۔
سندھ اسمبلی سے منظور ہونے والے دی سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹشنرز بل 2021 میں کہا گیا کہ اس بل کا مقصد ملک میں صحافیوں وار دیگر میڈیا پریکٹشنرز کے آزادی اظہار رائے کے حق ، انکے تحفظ غیر جانب داری اور خودمختاری کو فروغ دینا ہے جب کہ1973 ءکے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 19 کے تحت یہ ریاست کی ذمّے داری ہے کہ وہ آزادیٔ اظہارِ رائے کے حق کا تحفّظ کرے لیکن اس کے باوجود بھی صحافیوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا جو کہ لمحہ فکریہ ہے ۔