سیاست زدہ ہوجانے سے صحافی عدم تحفظ کا شکار

0
1132

رپورٹ: (حضور بخش منگی ) ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی میں صحافت بری طرح پامال ہو رہی ہے ۔ گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں  جاری سیاسی بحران میں ملکی میڈیا بری طرح تقسیم ہوچکا ہے ۔ میڈیا ہائوسز فریق بن کر اپنے اپنے مخالفین پر لفظی گولہ باری میں پیش پیش دکھائی دیتے نظر آرہے ہیں جس کے باعث جہاں صحافت متاثر ہو رہی ہے، وہیں بعض صحافی عدم تحفظ کا شکار بھی بن رہے ہیں ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان میں صحافی اور صحافت نایاب ہوچکی ہے ۔مخاطب ہونے والا صحافی اب کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی ترجمانی کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ اگر کوئی صحافی کہہ دے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کو سپورٹ نہیں کرتا تو یہ بات ناقابل یقین سی لگتی ہے ۔

کسی بھی صحافی کا ٹوئٹر اکاونٹ دیکھ کر با آسانی اس کی جانبداری کا پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کس سیاسی جماعت کی حمایت کر رہا ہے۔ صحافیوں کو سیاست زندہ ہوجانے پر کئی نقصانات کا سامنہ ہوتا ہے جس کے بعد انہیں سیکیورٹی کی اشد ضرورت پڑ جاتی ہے مخالفین سے قتل کی دھکمیاں ملنے لگتی ہیں اور ان کے ساتھ ہراسانی کے واقعات پیش آتے ہیں ۔ سیاست دان اور صحافی میں یہ فرق ہوتا ہے کہ سیاست دان اکثریت کی حمایت کی تلاش میں ہوتے ہیں اور صحافی سچ کی تلاش میں ہوتا ہے ۔ اگر ایک سیاست دان یا ادارہ جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کر رہا ہو تو ایک غیر جانبدار صحافی کا کام ہے کہ خبر کی کھوج لگا کر حقیقت عوام کے سامنے لائے ۔ اندرونی خبروں کے حصول کے لیے ہر صحافی سیاست دانوں یا پھر دیگر حلقوں کی قربت چاہتا ہے لیکن دوسری جانب عوام کے سامنے ایک صحافی کی غیر جانبداری ہی اس کا سب سے بڑا اور اصلی سرمایہ ہوتی ہے.اگرچہ غیر جانبداری نا کرنے والے صحافی زندگیوں سے ہاتھ دہو بیٹھتے ہیں۔

مظہر عباس ، جیو نیوز کے سینئیر کالم نگار اور سیکریٹری جرنل پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کا کہنا ہے کہ “دیکھیں صحافت کا کام ایک خبر کو تلاش کرنا اور اپنی رائے شامل کئے بغیر اس کو اخبار یا ٹیلی ویڑن چینل کو دینا ہے ۔ اگر کوئی تجزیہ کرتا ہے کسی سیاست دان یا کسی سیاسی جماعت کے بارے میں تو یہ اس صحافی کی اپنی ایک رائے ہوتی ہے ایک پوائنٹ آف ویو ہوتا ہے ۔ بہت سے لوگ مختلف قسم کے ٹیلی ویڑن پروگراموں میں سیاسی جماعتوں ، سیاست دانوں پہ تنقید بھی کرتے ہیں ۔ ان کی اچھائی اور برائی بھی بیان کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک تجزیہ نگار کا کام بھی ہے ، لیکن ضروری نہیں کہ جو تجزیہ نگار نے کہا ہے وہ درست ہوگا غلط بھی ہوسکتا ہے” ۔

 ان کا  مذید کہنا تھا کہ “میں یہ نہیں کہتا کہ صحافی سیاست  پر بات نہ کریں بلکہ سیاست ،جمہوریت اور صحافت یہ ایک پلر ہیں جہاں پہ سیاست ہو گی وہاں پہ جمہوریت بھی ہوگی اور صحافت بھی ہوگی لیکن پھر صحافت کرنے کے بھی کچھ اصول ہیں ۔ صحافی جب سیاست زدہ ہوجائے تو اپنا تحفظ کرنا مشکل ہوجاتا ہے انہیں جانی خطرہ لاحق ہوتا ہے پروٹیکشن کے بغیر وہ کہیں جا نہیں سکتا چوں کہ وہ کھلے صحافت کے پلر سے کسی ایک پارٹی کا حمایتی بن جاتا ہے ایسے معاملات پر کئی ایسے واقعات پیش آچکے ہیں جس کے باعث کچھ صحافی قتل ہوئے ہیں تو کئی تشدد کا نشانہ تو کسی کو اغوا کیا گیا ہے۔ صحافتی اصول یہ ہے کہ اپنے پیشہ سے ایمانداری کا حق ادا کریں عوام کے سواء کسی کی سیاست میں آنے گریز کریں تو وہ صحافی اپنا تحفظ بھی کرسکتا ہے ورنہ اگر آجکل ایک منٹ کے لیے ہم ٹی وی چینل دیکھیں تو واضع نظر آتا ہے کہ یہ صحافی کس جماعت کے حق میں بات کر رہا ہے ۔ تو پھر اس طرح فریق جماعت کے لوگ ان کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں” ۔

طارق محمود ، ڈائریکٹر نیوز سماء نیوز کا اس موضوع پر کہنا تھا کہ “صحافت سے وابستہ شخصیات کا حکومت یا سیاسی جماعت کا حصہ بننا کوئی نئی یا اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ البتہ اس رجحان میں اب اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کے برے اثرات بھی نظر آرہے ہیں آئے روز صحافیوں کو قتل کیا جارہا ہے وجہہ یہی بنتی ہے کہ وہ کسی پارٹی کے حمایتی ہوتے ہیں اس لیے احتیاط کرنا چاھئے آج کل تو کچھ صحافی نگران سیٹ اپ کے ذریعے اس میدان میں اترے ہیں  تو کچھ نے سیاسی جماعتوں  میں شمولیت اختیار کرلی ہے  اور کچھ نے تو  مستقل بنیادوں پر یہ پیشہ اختیار کرلیا۔ کسی بھی صحافی کی جانب سے حکومت یا سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے فیصلے نے ہمیشہ ہی ایک بحث کو جنم دیا ہے اور اس کے حق اور مخالفت میں دونوں طرح کی آرا موجود ہیں۔ تاہم اکثریت اس عمل کی ناقد رہی ہے”۔

“پنجاب میں نگران وزیرِاعلی کے لیے ایک میڈیا گروپ کے مالک کا انتخاب ہوا یوں حکومت کا حصہ بننے اور سیاست میں آنے والے صحافیوں کی فہرست میں ایک اور اضافہ ہوگیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث بھی چھڑ گئی۔

ابتدائی طور پر حکومت اور حزبِ اختلاف میں نگران وزیرِاعلیٰ کے ناموں پر اتفاق نہیں ہوسکا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے آئین کے تحت اختیار کا استعمال کرتے ہوئے سید محسن رضا نقوی کو نگران وزیرِاعلیٰ کے لیے منتخب کرلیا۔

محسن نقوی دوسرے صحافی ہیں جو نگران وزیرِاعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں اس سے پہلے یہ اعزاز نجم سیٹھی کو ملا تھا۔ نجم سیٹھی نے 2013ء کے عام انتخابات میں پنجاب کے نگران وزیرِاعلیٰ کے طور پر اپنے فرائض انجام دیے تھے ۔اس لیے مختلف دور میں صحافی سیاست دان بنتے جارہے ہیں میرے خیال میں صحافیوں کو اپنے کام پر ترجیح دینے چاھئے تو بھتر رہے گا ۔

ویسے تو ڈاکٹر حسن عکسری رضوی کا تعلق تدریس سے رہا ہے لیکن کالم لکھنے اور نیوز چینلز پر تجزیہ نگار کے طور پر نظر آنے پر انہیں بھی ان صحافیوں کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے جو نگران وزیرِ اعلیٰ مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی 2018 میں قائم ہونے والی نگران پنجاب حکومت کے سربراہ تھے۔مگر اصل صحافی وہ ہوتا ہے جو اپنے پیشہ سے سچا ہو سیاست دان حقائق کو عوام سے چھپاتے ہیں مگر صحافی وہ آئینہ ہے جو عوام کو اصل حقائق دکھاتا ہے اس لیے میرے آرا ہے کہ کسی بھی صحافی کو سیاست زدہ نہ ہونا چاھئے جس کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، کیوں کہ اپنا اور اپنی صحافت کا تحفظ کرنا ہمارے اولین فرض ہے” ۔

 

سکھر یونین آف جرنلسٹس کے صدر امداد بوزدار نے کہا ہے” کہ پاکستان کےاندر حقیقت پر مبنی صحافت کرنا انتہائی مشکل اور کٹھن کام بن کر رہ گیا ہے کیونکہ جب ایک غیر جانبدار صحافی اپنی خبر یا اسٹوری بنا کر اخبار یا ٹی وی چینل کو دیتا ہے تو کہیں نہ کہیں سے کسی نہ کسی طرح یا تو اس رپورٹر کو یا پھر اس کے ادارے پر دباؤ آتا ہے یا کسی نہ کسی طرح انہیں خاموش کرنے یا بیک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن جو دو وجوہات ہیں ان میں سے ایک تو میڈیا پروفیشنل سے زیادہ کمرشل کے طور پر کام کر رہا ہے کئی اداروں کے مالکان کاروباری فرد ہیں ان کی کئی مجبوریاں ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے ادارے کے پلیٹ فارم پر کھل کر بات نہیں کر سکتے دوسری بات یہ ہے کہ صحافی کسی نہ کسی طرح ٹارگٹ بن جاتے ہیں”۔

“جیسے کہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے اندر اب تک 150 سے زائد صحافیوں کو شہید کیا جا چکا ہے اور سینکڑوں کی تعداد میں صحافی تکلیف اور کرب سے گزر رہے ہیں،حکومت اور ریاست کو چاہیے کہ پاکستان کے اندر امن و امان کے قیام کو مکمل بحال رکھنے کے ساتھ ساتھ صحافتی اداروں کو تحفظ فراہم کریں۔میرے خیال میں پاکستان کے اندر پروفیشنل اور تحقیق کرنے والے ہزاروں صحافی موجود ہیں۔ عام لوگوں تک سچائی پہنچانے کے لیے جذبے اور عزم کے ساتھ یہ صحافی فیلڈ میں کام کرنے جاتے ہیں۔ لیکن کسی نہ کسی مجبوری کی وجہ سے وہ صحافی کام نہیں کر پاتے حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام تک سچائی کو پہنچانے کے لیے اس طرح کے صحافیوں کو پروموٹ کریں۔ اگرچہ صحافیوں کی قتل ہونے کے واقعات اس لیے رونما ہوتے ہیں کہ وہ سیاست کرنے بیٹھ جاتے ہیں، تاہم انہیں سیکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے” ۔

شبانہ ملک، لیڈیز ونگ ضلعی صدر کشمور کا کہنا ہے کہ “صحافت اور سیاست لازم و مظلوم ہیں ، ایک دوسرے کے بغیر نا سیاست چل سکتی ہے اور نہ ہی صحافت سیاست کے بغیر چل سکتی ہے ۔ میرے خیال میں صحافیوں کو عوام کے مفادات کو دیکھ کر صحافت کرنے چاھئے ضروری نہیں کہ صحافی سیاست دانوں کے گناہوں کو چھپائیں بلکہ وہ حقیقت بیان کریں جن سے ان کی کمی کوتاہیاں سدھر جائیں معاشرے میں صحافت عوام کی آواز ہوتے ہیں ۔ عوام کو آنکھوں میں دھول نہ ڈالیں عوام کو حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے کام کیا جائے ۔ میں ایک سیاسی رہنما ہوں مجھے یہ پسند ہوگا اگر مجھے کوئی سچائی کا آئینہ دکھائے ایسا ہر نہیں کہ سارے سیاست دان ایک جیسے  ہوتے ہیں ۔ہر انسان کی اپنی اپنی سوچ ہوتی ہے، پھر بھی آجکل کے دور میں کئے ایسے صحافی یا میڈیا ہائوسز مالکان ہیں جو پولیٹکل رہنماوں سے ملے ہوتے ہیں ۔ جن کی وجھ سے سیاست اور صحافت دونوں بدنام ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دنوں کو نقصان اٹھانہ پڑتا ہے” ۔

   امداد کھوسوصحافی اور کائونسل میمبر پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے فرمایا کہ ” یہ بالکل عیاں حقیقت ہے کہ سیاستدانوں اور صحافیوں کے غیرجانبدارانہ عمل سے جمہوریت کی بحالی نا ممکن ہے. اس سلسلے میں  ماضی اور حال کی صحافت پر نظر دوڑانے کی ضرورت ہے، ماضی میں صحافت نے سیاسی اور جمہوری عمل کے فروغ میں اپنا کردار بہت ہی اچھے انداز میں نبھایا تھا جن کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں، مگر پھر ایسا وقت بھی آیا جب صحافت میں جدت آنا شروع ہوئی تو معاملہ فہمی اور ذاتی فائدہ سر چڑھ کر بولنے لگے.مگر اب معاملات اس سے بھی زیادہ مختلف ہوچکے ہیں. موجوده مارکیٹنگ اور رینکنگ کے دور میں صحافی ڈنکے کی چوٹ پر سیاسی جماعتوں کا ساتھ دینے کے دعوے کرتے ہیں، وہ سرعام سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں کا کام کرتے ہیں جس سے صحافی اور صحافت کو نقصانات کا ازالہ کرنا پڑتا ہے”۔

 ان کا مذید کہنا تھا کہ “اگر کوئی صحافی سرعام کسی ایک پارٹی کی ترجمانی کرے گا تو ظاہر سی بات ہے کہ انہیں جانی مالی اور دیگر دھمکیاں ملتی رہیں گی ۔ صحافی  خود کو ‘غیرجانبدار صحافی یا تجزیہ کار‘ بھی کہتے ہیں۔ کیا ایسا کرنے سے کوئی نقصان بھی ہوتا ہے۔سیاسی جماعتوں کی حمایت کرنے سے نامور صحافیوں کی اپنی ساکھ داؤ پر لگ جاتی ہے، صحافت کی ساکھ داؤ پر لگ جاتی ہے”۔

 انھوں نے کہا کہ “ہونا تو یہ چاہیے کہ بطور صحافی ایک صحافی دیانتداری سے کام لے۔ عوام کو حتی الامکان سچ پر مبنی اطلاعات فراہم کرے۔ آپ تجزیے کرتے وقت بھی جہاں تک ممکن ہو سکے غیر جانبدار رہتے ہوئے ہی تجزیے کریں۔ لیکن ایسا اب نہیں رہا۔ پاکستانی میڈیا پر تجزیے اور کالم صحافیوں کے نہیں بلکہ سیاسی کارکنوں، پرجوش کارکن ، پارٹی ممبر اور ہنٹر صحافیوں کے تجزیے محسوس ہوتے ہیں”۔

“عوام میں ایک غیرجانبدار صحافی یا تجزیہ کار کا تاثر قائم رکھنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے شاید ایک صحافی کو اپنے ذاتی مفادات کی قربانی بھی دینا پڑتی ہے اور پاکستان میں شاید اب صحافیوں کے لیے ذاتی مفادات اور ذاتی نظریات کی قربانی دینا ایک مشکل کام بن چکا ہے۔

دوسرے لفظوں میں سیاسی وابستگیاں آپ کے کام کو کھا جاتی ہیں، آپ کے علمی قد کو چھوٹا کر دیتی ہیں، عوام کا ایک مخصوص طبقہ تو آپ کی عزت کرتا ہے لیکن دیگر معاشرتی طبقات میں آپ قابل اعتماد نہیں رہتے۔ آپ اپنے ساتھ زیادتی کر رہے ہوتے ہیں، صحافت جیسے پیشے کے ساتھ زیادتی بھی ہوتی ہے اور یہ عمل آپ کے اپنے مداحوں کے ساتھ بھی زیادتی ہی کے زمرے میں آتا ہے۔جس کا زیادہ نقصان جمہوری اور سیاسی نظام کا ہوتا ہے، کیوں کہ جمہوری عمل میں ایک صحافی کا کردار بطور بالغ نظر کا ہونا چاہیے جس سے ان قوتوں کو شرمندگی ملے گی جنہوں نے تابڑ توڑ صحافت کو نقصان دینے کا تہیہ کیا ہوا ہے.اس لیے صحافی کو سیاسی پارٹی ہر گز نہ بننا چاھئے جس سے صحافیوں کو نقصانات پیش آرہے ہیں “۔

 

سینئیر صحافی مبشر بخاری جو کے بہت سے بین القوامی صحافتی اداروں سے منسلک ہیں اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ” صحافی کا کام ہوتا ہے کہ کسی کی پارٹی نہ بنے جو سچ ہو وہ بولے اور لکھے۔ ہمارے ہاں اس طرح کی بیشتر مثالیں موجود ہیں ۔ مطلب ایک صحافی کی نظریاتی، سیاسی ،مذہبی اور معاشرتی دوستیاں ہوسکتی ہیں ۔ لیکن اچھا صحافی وہ ہوتا ہے جس کی رپورٹنگ میں یہ وابستگیوں کی جھلک نظر نہ آتی ہو۔ یعنی رپورٹ کرتے ہوئے اپنے نظریات کے بنیاد پر کوئی رعایت نہ برتے۔ ماضی میں اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں مثلا ، ڈاکٹر مہدی حسن ، نثار عثمانی اور حسین نقی صاحب جو بائیں بازو کی سیاست میں شامل رہے ہیں۔ جن کی مثالیں آج بھی تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں ۔”
ان کا مذید کہنا تھا کہ ” جب ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے تو نثار عثمانی صاحب ان کے بہت قریب تھے۔اور میں نے نثار عثمانی صاحب کے منہ سے خود سنا ہے کے بھٹو صاحب نے انھیں برطانیہ میں ھائی کمشنر لگانے کی آفر بھی دی تھی، لیکن نثار عثمانی صاحب نے ریفیوز کردیا تھا۔ اور اس بات کی میں بھی گواہی دوں گا جب بینظیر صاحبہ کے دور میں فرامبل سے علاج اور گھر کی آفر دی گئی تو انہوں نے ان آفرز کو بھی ٹھکرادیا۔ اگرچہ وہ بائیں بازو کے سیاست دانوں کے ساتھ تھے مگر انہوں نے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیاتھا ۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر مہدی حسن صاحب بھی پپلز پارٹی کے ساتھ تھے مگر ایک دن انہیں یوم تاسیس پروگرام میں مدعو کیا گیا تو وہاں پر جو تقریر کی وہ موجودہ حکومت پپلز پارٹی کے برعکس تھی۔ جس پر محترمہ بینظیر صاحبہ نے لوگوں سے باقاعدہ پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب کو کس نے مدعو کیا تھا تو وہاں پر جو آرگنائیزر تھے انہیں تو لینے کے دینے پڑگئے۔ تیسری مثال حسین نقی صاحب کی ہے جو آج بھی حیات ہیں۔ جنہوں نے کراچی یونیورسٹی میں ایکٹویزم کے چکر میں اپنے درجنوں ساتھیوں کو بچانے کے لیے اپنی ہی تعلیم کی قربانی دے دی تھی۔اس طرح کے بہت سارے معاملات حسین نقی صاحب کے ساتھ پیش آئے جن میں سے ایک یہ ہے کہ جب انہیں محسوس ہوا کے صحافتی ادارہ اپنی پالیسی سے انحراف کر رہا ہے تب انھوں نے ‘دی نیوز’ سے واک آوٹ کردیا تھا ۔ اس طرح بہت ساری مثالیں اور بھی ہیں جیسے نصرت جاوید جو کسی کی پارٹی نہیں بنتے تو اس لیے ریڈ لائین میں نہیں آتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں صحافت وہ صحافت نہیں رہی بلکہ کاروبار بن چکی ہے ۔ کاروباری اور تاجر حضرات میڈیا ھائوسز کی دکانیں کھول کر دیگر کاروبار کر رہے ہیں، جو کہ سیاست دان اور حکمرانوں کے ماتحت ہیں۔ جو سچ کو چھپانے کے لیے عوام کی آنکھوں میں دھول پھینکتے ہیں ۔ بس ترجمان ، ایجنٹ اور لابنگ کرنے والا صحافی نظر آتا ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحافت نیم مردہ ہوگئی ہے”۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(پی ایف یو جے) کے مرکزی رہنما لالا اسد پٹھان نے کہا کہ “جو صحافی سیاسی پارٹیوں کا ساتھ دیتے ہیں وہ صحافت کے معیار کو تو  نقصان پہنچاتے ہی ہیں  البتہ ساتھ  ہی خود کا بھی نقصان کرتے ہیں” ۔

لالا اسد پٹھان نے کہا کہ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ” اکثر اوقات میں صحافیوں کا قتل سیاست زدہ ہونے کی  وجوہات پر مبنی ہوتا ہے اس لیے خدا کے لیے اپنے پیشے پر ایسا داغ نہ دیں جس سے صحافت کا مقدس پیشہ بدنام ہواور خود بھی عدم تحفظ کا شکار ہوں” ۔
سیاست کا فریق بن کر کام کرناچاھئے ۔ صحافت ایک کاز  ہے جس کے  تحت کام کریں اصل حقائق کو دکھانہ لکھنا ہمارا اصل کام اور فرض ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی سے لاتعلق ہوکر رپورٹنگ کریں گے تو عوام کے سامنے آپ کا اور آپ کی رپورٹنگ کا معیار بلند ہوگا اس طرح واقعات رونما نہیں ہوسکیں گیں۔

سندھی اخبار دھرتی کے ایڈیٹر ظھیر میرانی نے کہا ہے کہ “میڈیا قوانین تو اتنے سخت ہیں کہ اگر ایک پریس کلب کا میمبر صحافی ہو اور اس نے اپنے نام سے پبلشر ڈی کلیئریشن کروائی ہے تو وہ پریس کلب کا میمبر نہیں رہتا ۔میبر شپ سے بھی خارج ہوجاتا ہے ۔ صحافی ایک غیر جانبدار ہوتا ہے اس کا کسی بھی پارٹی میں شامل ہونا یا سیاست کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ صحافی نہیں رہے۔ کسی ادارے میں کام کرنے کے لائق نہیں رہتا ہے ۔ کوئی ادارہ پھر بھی اس پر مہربان ہو تو وہ الگ بات ہے ، صحافی اگر سیاست کرتا ہے تو اس کے کئی فوائد اور مسائل بھی ہیں”۔

“فوائد تو یہ ہیں کہ اسی پارٹی سے فنڈنگ اور وزیر بننے کا موقع ہوتا ہے۔ نقصانات کی اگر بات کی جائے تو وہ جب  غیر جانبداری سے ہٹ جاتا ہے ایک پارٹی سے منسلک ہونے کے بعد دوسری فریق پارٹیوں کے ساتھ دشمنیاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔ تب وہی صحافی عدم تحفظ کا شکار ہوجاتا ہے ۔ اور اس کے ساتھ  ناخواشگوار واقعات پیش آتے ہیں ۔ پھر وہی صحافی کا نقاب پہن کر تنظیموں کا سہارا لیتا ہے  جو کہ ایسا ہر گز نہیں کرنا چاھئے چوں کہ صحافی تنظیمیں ایسے شخص کو اگرچہ صحافی مانتے ہیں جو اپنے پیشے سے ہٹ کر سیاست میں لگ جاتا ہے اپنے مفادات کو پیشے سے زیادہ وقت دیتا ہے تو یہ انتہائی غلط بات ہے میرے خیال میں صحافیوں کو غیر جانبداری کے ساتھ کام کرنا چاھئے جو بھتر طریقے سے کام کر رہے ہیں جنہیں شہریت نہیں چاھئے وہی اصل صحافی ہیں جو اپنا اور اپنی قلم کا تحفظ بھی کررہے ہیں اور وہی  بلاتفریق پیشہ ور صحافی بن کر کردار ادا کر رہے ہیں”۔

سینیئر تجزیہ نگاروں ،ایڈیٹر ، صحافیوں اور ہیومن رائٹس کے نمائندوں، سیاسی حلقوں کے بیانات سے واضع ہوتا ہے کہ صحافیوں کو سیاست زدہ  بننے سے گریز کرنا چاہئیے جس سے صحافی کو خطرات لاحق ہوتے ہیں ۔ اس لیے صحافیوں کو چاھئے کہ اپنی تنظیموں کو مضبوط بنانے کے لیے سیاسی پارٹی نہ بنیں  چوں کہ سیاسی پارٹی سے رپورٹنگ کے معیار کو نقصان کے ساتھ ساتھ صحافیوں کی زندگیوں کو بھی خطرات پیش آتے ہیں

۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here