کراچی (فرحانہ نیازی) نیوز لینز: پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ویلنٹائن ڈے (عالمی یومِ محبت) کی آمد سے صرف ایک روز قبل یعنی 13 فروری کو شہر کی مرکزی شاہراہوں ایم اے جناح روڈ اور شاہراہ فیصل پر سفید پس منظر میں سرخ اور سیاہ رنگ کی عبارت سے سجے اشتہاری بورڈز سامنے آئے، جن میں قرآن اور حدیث کے حوالوں کے ساتھ ’نو ٹو ویلنائن ڈے ‘ کی عبارتیں تحریر تھیں۔ جبکہ ایک کونے میں تنظیم اسلامی کا پیغام، نظام خلافت کا قیام بھی واضح تھا۔
تنظیم اسلامی پاکستان کے بانی ڈاکٹر اسرار احمد تھے۔ یہ تنظیم پاکستان میں نظام خلافت کے قیام کی خواہاں ہے۔ جس کا مرکزی دفتر لاہور میں واقع ہے۔ تنظیم اس مقصد کے لیے درس وتدریس کی محافل منعقد کرواتی ہیں جن میں مرد وخواتین دونوں شرکت کرتے ہیں۔
کراچی میں گذشتہ دنوں گرفتار ہونے والے بعض شدت پسندوں کا ماضی میں بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق تنظیم اسلامی سے رہا ہے لیکن تنظیم اسلامی نے ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔
کراچی میں پولیس کے انسدادِ دہشت گردی یونٹ کے انچارج راجہ عمر خطاب نے نیوز لینز پاکستان کی نمائندہ سے باالمشافہ ملاقات میں بتایا کہ تنظیم اسلامی اب خلافت سے عسکریت پسندی کی جانب مائل ہوچکی ہے۔
’دو طرح کے لوگ تنظیمِ اسلامی کے پلیٹ فارم سے کام کرتے اور تبلیغ کرتے تھے اور خلافت کے قیام کی دعوت دیتے تھے لیکن اُن میں عسکریت نہیں تھی لیکن پھر جب ان کے آپس میں اختلافات ہوئے تو پھر اِن کی شدت پسندی خلافت کے قیام کے لیے عسکریت کی طرف چلی گئی۔‘
یاد رہے داعش خلافت کے قیام کے لیے سرگرمِ عمل ہے اور ایک آزاد اسلامی ریاست قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ القاعدہ کی طرح اب پاکستان میں بھی دولتِ اسلامیہ کے اثرات دیکھے جارہے ہیں۔
سال 2015 کے دسمبر میں داعش کے متعلق ایک اور غیر معمولی حقیقت سامنے آئی جب راجہ عمر خطاب نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ شہر میں داعش سے وابستہ خواتین کا ایک 20 رُکنی گروہ سرگرم ہے جو خواتین کی ذہن سازی، چندہ اکھٹا کرنے اور شدت پسندوں کی شادیوں کا انتظام کرتی ہیں۔
راجہ عمر خطاب کے مطابق’ اگر کسی خاتون کا شوہر شدت پسند تنظیم سے وابستہ ہے تو یقینی طور پر اُس خاتون کی سوچ بھی اُس جیسی ہوگی اسی وجہ سے وہ اس شخص کے ساتھ اتنی مشکل زندگی گزار رہی ہوتی ہے۔‘
پاکستان میں داعش کی موجودگی سب سے پہلے کراچی میں اس وقت ظاہر ہوئی جب دیواروں پر داعش کی حمایت میں چاکنگ کی گئی۔ جس کے بعد کراچی کے چند نجی سکولوں پر دستی بم اور جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی وائس پرنسپل اور امریکی شہری ڈیبرا لوبو کوگولیاں مار کر زخمی کرنے کے واقعات بھی پیش آئے۔ اس کے بعد 13 مئی کو کراچی کے علاقے صفورا گوٹھ میں اسماعیلی شیعہ برادری کی بس پر فائرنگ کے نتیجے میں 45 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اِن تمام مقامات سے داعش کے پمفلٹ ملے تھے۔
پاکستان کے وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان ملک میں دولتِ اسلامیہ کی موجودگی کی تردید کرتے رہے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ چند شدت پسند تنظیمیں داعش کا نام استعمال کررہی ہیں۔
ملٹری ان کارپوریٹ کی مصنفہ اور دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے نیوز لینز پاکستان سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں کے حامل ہونے کی وجہ سے داعش کی موجودگی کا اقرار پاکستان کی جوہری تنصیبات کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت پُھونک پُھونک کر قدم رکھ رہی ہے۔‘
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ ’ایک تخمینے کے مطابق پاکستان سے تقریباً 600 سے 700 افراد لڑنے کے لیے شام گئے ہیں۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو زیارتوں کے لیے بھی عراق اور شام جاتے ہیں تو ہمیں نہیں معلوم کہ کتنے لوگوں کے ذہن تبدیل ہوئے ہیں یا کسے جہاد میں حصہ لینے کا شوق پیدا ہوا ہے۔‘
اس کے برعکس رواں سال پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ اب تک کی تحقیقات کے مطابق ملک بھر سے لگ بھگ سو افراد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ میں شمولیت کے لیے عراق اور شام جا چکے ہیں۔
پاکستان کے انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹربیون نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ گذشتہ سال دسمبر میں لاہور سے تین خواتین ایک درجن سے زیادہ بچوں کو لے کر شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ میں شامل ہونے کے لیے شام گئی تھیں۔ ان افراد کے اغوا کی ایف آئی آر چند ماہ قبل ٹاؤن شپ، وحدت کالونی اور ہنجروال کے تھانوں میں درج کروائی گئی تھیں۔
پاکستان انسٹیٹوٹ آف پیس کے ڈائریکٹر عامر رانا نے نیوز لینز سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ خواتین کا اسلامی شدت پسند تنظیموں میں شامل ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔
’کسی گھر کے مرد اگر شدت پسندی میں ملوث ہیں تو ان کی خواتین پر بھی لازم ہوتا ہے کہ وہ بھی اس کے لیے کام کریں، پاکستان میں اس طرح کے کئی شواہد ملتے رہے ہیں۔ تاہم جو خواتین شدت پسند ونگ میں شامل ہوئی ہیں اُن کی تعداد بہت زیادہ نہیں محدود سی ہے۔‘
مبینہ طور پر شام جانے والی خواتین میں ٹاؤن شپ کی بشریٰ چیمہ عرف حلیمہ کے علاوہ فرحانہ نے الہدیٰ انٹرنیشنل اسلامک انسٹیٹیوٹ سے دینی تعلیم حاصل کی تھی۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اس مدرسے سے تعلیم حاصل کرنے والی خواتین صرف پاکستان میں ہی موجود نہیں بلکہ یہ خواتین امریکہ میں بھی موجود ہیں۔
2 دسمبر سنہ 2015 کو امریکی مغربی ریاست کیلیفورنیا کے علاقے سان برنارڈینو میں رضوان فاروق اور ان کی اہلیہ تاشفین ملک نے ذہنی معذوری اور بیماریوں کا شکار افراد کی مدد کے مرکز ان لینڈ ریجنل سینٹر میں جاری تقریب میں گھس کر فائرنگ کی تھی جس سے 14 افراد ہلاک اور 21 زخمی ہوئے تھے۔تاشفین ملک نے بھی الہدیٰ سے اٹھارہ ماہ کا کورس کیا تھا۔
الہدیٰ کی داعش سےنسبت کے متعلق متضاد باتیں گردش کرتی رہی ہیں۔ الہدیٰ کے متعلق تحقیق کرنے والی ایک اسکالر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ الہدیٰ صرف دین سے متعلق خواتین کو تعلیم وآگاہی دینے کا کام کرتا ہے اور اس میں متوسط طبقے سے لے کر نچلے طبقے تک کی خواتین شامل ہوتی ہیں۔
’ان کی تعلیم قرآن کی تفسیر اور حدیث کے حوالے سے ہوتی ہے ، یہ بلکل کسی سیاسی مسائل پر بات نہیں کرتے، پُرتشدد باتیں نہیں کرتے۔ تاشفین ملک یا فرحانہ نے الہدیٰ کی کلاس سے نہیں سیکھا بلکہ انھوں نے یہاں سے فارغ ہونے کے بعد جو بھی کیا وہ اُن کا انفرادی عمل تھا۔‘
پاکستان میں اس وقت صرف وفاق المدارس کے زیر انتظام مدارس میں 30 لاکھ کے قریب طلبا زیر تعلیم ہیں، جن میں سے ایک تہائی لڑکیاں ہیں۔حکومت نے ملک میں شدت پسندی کے خلاف جاری نیشنل ایکشن پلان میں مدارس کی رجسٹریشن لازمی بنانے اور مشکوک مدارس کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
نیوز لینز پاکستان نے جامعہ بنوریہ العالمیہ کے مہتمم مفتی نعیم الرحمان سے ٹیلی فون پر بات کی تو اُن کا کہنا تھا کہ ’اگر مدارس دہشت گرد ہیں تو لگادیں ناں یہاں پر بھی دو تین گاڑیاں؟ ساری سیکیورٹی یونیورسٹیوں پر ہی کیوں لگائی جاتی ہے۔ وہاں ہر سٹوڈنٹ اور استاد کی بھی تلاشی ہوتی ہے یہاں آئیں یہاں بھی ایسا کریں کیوں نہیں کرتے؟ یہ فضول پروپیگنڈا ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔‘
کراچی میں خواتین میں مذہبی رجحان میں تیزی آئی ہے، جس نے رہن سہن، اور اُن کے پیرہن پر بھی اثر ڈالا ہے۔ شہر میں ہر ہفتے کئی مقامات پر درس وتدریس کی محافل کا انعقاد ہوتا ہے۔
راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے کہ شہر میں سرگرم شدت پسند گروہ میں شامل خواتین درس وتدریس کی محافل سے ہی اپنا کام شروع کرتی ہیں اور جب آہستہ آہستہ خواتین اس میں دلچسپی لینے لگتی ہیں تو یہ اپنا اصل مقصد بھی بیان کردیتی ہیں۔
کراچی میں اسماعیلی برداری کی بس پر حملے کے الزام میں گرفتار ملزمان میں کچھ شہر کی اہم جامعات سے فارغ التحصیل تھے جس کے بعد تحقیقاتی اداروں کا اندازہ ہے کہ ان اداروں میں بھی شدت پسندی کی اثرات موجود ہیں۔ گزشتہ دنوں زیبسٹ نامی ادارے کے ایک استاد کو بھی حراست میں لیا گیا جس کا تعلق حزب التحریر نامی تنظیم سے بتایا گیا یہ تنظیم بھی خلافت کے قیام کے لیے سرگرم ہے۔
نیوز لینز پاکستان نے کراچی کی جامعات میں زیر تعلیم بعض طالبات سے بات کی۔ ایک طالبہ عائشہ کا کہنا ہے کہ طالبات میں مذہبی رجحان میں اضافہ ہوا ہے تاہم وہ شدت پسندی کو پسند نہیں کرتیں۔
’اسلام یہ بالکل نہیں کہتا کہ کسی کو ماریں، کسی کا برین واش کریں یا اُس سے غلط کام کروا کر اُسے دین پر چلائیں۔ ہم کسی کو دین کی طرف راغب کرنے کے لیے تبلیغ ضرور کرسکتے ہیں لیکن زور زبردستی نہیں کرسکتے ۔‘
سارہ نامی ایک اور طالبہ کا کہنا تھا کہ’پاکستان میں سرگرم شدت پسند تنظیمیں صرف اسلام کا نام استعمال کررہی ہیں وہ معصوم لوگوں کو قتل کررہی ہیں جو غلط ہے جس کی ہمارا مذہب بلکل بھی اجازت نہیں دیتا۔‘
کراچی میں جہاں بڑے بڑے نامور برانڈز کے اشتہاری بورڈز نظر آتے ہیں وہیں خواتین کے عبایا اور اسکارف کے حوالے سے بل بورڈز بھی مختلف شاہراہوں کی زینت ہیں۔ جبکہ کچھ عرصے کے دوران شہر میں عبایا اور اسکارف کلچر بھی تیزی سے پروان چڑھا ہے یہ رجحان مذہبی سوچ میں اضافے کا اشارے دیتا ہے۔ اس حوالے سے نیوز لینز پاکستان نےجماعتِ اسلامی کے شعبہ خواتین سندھ سیکٹر کی ایک ذمہ دار افشاں نوید سے ٹیلیفون پر بات کی تو اُن کا کہنا تھا کہ بظاہر شہر میں عبایا، اسکارف کلچر پروان چڑھ رہا ہے اور درس وتدریس کی محافل میں بھی تیزی آئی ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ وہ خود بھی مہینے میں دس سے بارہ اجتماعات میں جاتی ہیں اور اپنے حلقہ احباب میں شامل خواتین کو بھی شرکت کی دعوت دیتی ہیں۔
افشاں نوید پاکستان میں شریعتی نظام کی حامی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’پاکستان ملک بنا ہی نظریاتی بنیادوں پر تھا یہ کوئی زمین، پہاڑوں، دریاؤں کی تقسیم نہیں تھی اور اب پاکستان آکر ہم کہیں کہ پاکستان سیکولر ہوں اسلامی جمہوریہ کا نام ہٹایا جائے تو یہ نظریے کے ساتھ انحراف ہے۔‘
پنجاب سمیت پورے ملک میں داعش سے وابستہ خواتین موجود ہیں تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے۔
راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس موجود معلومات کے مطابق اِن خواتین کا اثر صرف کراچی کی حد تک ہی ہے لیکن کراچی کے بھی تمام علاقوں میں نہیں بلکہ چند مخصوص علاقوں میں جن میں گلشنِ اقبال، گلستانِ جوہر، سرجانی ٹاؤن، نارتھ کراچی، ڈیفنس ہے اس کے علاوہ ایک دو اور ایسے علاقے ہیں جہاں اس نیٹ ورک کی خواتین کام کرتی ہیں۔‘
کراچی میں اِن خواتین کے سرگرم ہونے کی مصدقہ اطلاعات کے باوجود شہر میں درس وتدریس کی محافل کا سلسلہ اسی طرح سے جاری ہے اور اِن کی نگرانی بھی نظر نہیں آتی۔
تاہم راجہ عمر خطاب کا دعویٰ ہے کہ اُن کی اطلاعات کے مطابق اب ایسی محافل منعقد نہیں ہوتیں۔
’ جہاں جہاں ہمیں معلوم تھا کہ اس طرح کی درس وتدریس کی محافل منعقد ہوتی ہیں وہاں کی بہت سخت نگرانی کی جارہی ہے اور ہماری اطلاع کے مطابق تب سے دوبارہ ایسی کسی محفل کا انعقاد نہیں کرایا گیا۔‘
لیکن دوسری طرف اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ایسی محافل منعقد ہوتی ہوں لیکن اُنھیں اس کی اطلاع نہ ہو۔
ماضی قریب میں الہدیٰ کے علاوہ دیگر بھی کئی اسلامی ادارے ہیں جن کا نام داعش یا شدت پسند تنظیموں سے جوڑا جاتا رہا ہے۔ پولیس نے دسمبر سنہ 2015 میں بتایا تھا کہ صفورا بس حملے میں ملوث ملزم خالد یوسف نے دورانِ تفتیش انکشاف کیا تھا کہ اُن کی اہلیہ الذکرہ اکیڈمی کے نام سے ایک ادارہ چلاتی ہیں جس کا کوئی دفتر نہیں ہے۔
ایس ایس پی راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے کہ ’ کراچی میں داعش کی جو بڑی اور سرگرم خواتین تھیں خاص طور پر خالد یوسف باری کی بیوی ناہید باجی تاحال روپوش ہیں۔‘