اسلام آباد (رحمت محسود سے) حکومت نے ایک بار پھر 2018ء تک بجلی کی موجودہ پیداوار سے دگنا بجلی پیدا کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن حزبِ اختلاف کے سیاست دان کہتے ہیں کہ 2018ء کے انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے یہ دعویٰ صرف ’’ ایک سیاسی چال‘‘ہے کیوں کہ اسی برس انتخابات کا انعقاد عمل میں آئے گا۔
پاکستان کے تباہ حال توانائی کے شعبے کی خوش کن تصویر پیش کرتے ہوئے وزارت پانی و بجلی کے ڈپٹی سیکرٹری (ایڈمن1-)ظفر یاب نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کی پیداوار 16,890میگاواٹ سے بڑھ کر 2018ء تک 40ہزار میگاواٹ ہوجائے گی۔ ظفر یاب نے مزید کہا:’’ ملک کو اس وقت 22ہزار میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے جب کہ بجلی کی پیداوار 16,890میگاواٹ ہے۔‘‘
لیکن حزبِ اختلاف کے رہنما کہتے ہیں کہ یہ حکمرانوں کی جانب سے 2018ء کے انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے کیا جانے والا ایک اور بڑا دعویٰ ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت قوم سے بجلی کی بندش ختم کرنے کے وعدے کرتی رہی ہے جو پورے نہیں ہوسکے۔
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے یہ کہا تھا کہ اگر وہ بجلی کا بحران حل کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو ان کو شہباز شریف کے نام سے نہ پکارا جائے۔
فرحت اللہ بابر نے مزید کہا:’’ تقریباً تین برس گزر چکے ہیں اور بجلی کا بحران حل ہونا تو کجا،یہ مزید بڑھا ہے۔‘‘
نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کی جانب سے فراہم کی گئی تفصیلات سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ 1947ء میں ملک کی تین کروڑ اور 15لاکھ آبادی کے لیے صرف 60میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی تھی۔ 1959ء میں مقامی طور پر بجلی کی پیداوار 636میگاواٹ تک بڑھ گئی۔
این ٹی ڈی سی کی اس دستاویز کے مطابق 1970ء میں مزید بجلی پیدا کرنے کا ہدف متعین کیا گیا اور متعد د تھرمل اور ہائیڈل پاور یونٹوں کی تنصیب سے بجلی کی پیدا وار بڑھ کر 1331میگاواٹ ہوگئی۔ایک بار پھر 1990ء اور 1991ء کے دوران بجلی کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ ہوا اور یہ سات ہزار میگاواٹ تک ہوگئی لیکن ظفر یاب کہتے ہیں کہ چشمہ ہائیڈرو پاور پلانٹ ، تھرمل و ہائیڈل ذرائع اور انڈیپنڈنٹ پاور پلانٹس سے مجموعی طور پر حاصل ہونے والی بجلی کی پیداوار16,890میگاواٹ سے نہیں بڑھ رہی۔
موسمِ گرما شروع ہونے میں اب زیادہ دن نہیں ہے لیکن عوام مستقل بنیادوں پربجلی کی بندش کا سامنا کر رہی ہے اور ان حالات میں حکومت کی جانب سے یہ دعوے کیے جارہے ہیں کہ بجلی کا شدید ترین بحران دو برسوں میں حل کر لیاجائے گا۔
فرحت اللہ بابر نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی قیادت میں جب ان کی جماعت نے ملک کا اقتدار سنبھالا تو گردشی قرضوں کے مسئلے کو حل کرنے کا وعدہ کیالیکن اس وقت ایک بار پھر گردشی قرضے تقریباً پانچ ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔
انہوں نے اپنے مشاہدے کی روشنی میں مزید کہا:’’ ہم توانائی کے شعبے کو بھی اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے اور جب تک تمام فریقین اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں نہیںلے لیا جاتا، اس مسئلے کا حل ہونا ممکن نہیں۔‘‘
اُن سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ حکومت نے انتخابات کے سال یعنی 2018ء میں ہی بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے مقرر کیے گئے ہدف کے حصول کا وعدہ کیوں کرکیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ وہ (حکومت) ’’غلط اور مبالغہ آمیز وعدے‘‘ کرکے انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہونا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان غلط اور مبالغہ آمیز وعدوں کے باوجود پاکستان کے عوام بہ خوبی آگاہ ہیں کہ اسی حکومت نے ماضی میں اپنے وعدوں کا پاس نہیں رکھا۔
فرحت اللہ بابر نے کہا:’’ وہ (حکومت) ان سیاسی حربوںکے ذریعے عوام کے جذبات سے نہیں کھیل سکتے۔‘‘
ظفر یاب کہتے ہیں کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران پاکستان مسلم لیگ نواز کی برسرِاقتدار حکومت ’’ بجلی کی بندش میں توازن پیدا کرنے کے علاوہ کچھ نمایاں تبدیلیاں‘‘ لائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے نومبر 2014ء سے گھریلو صارفین کی بجلی کی بندش 8سے 11گھنٹوں سے کم کرکے 6سے 8گھنٹے تک کر دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح صنعتی شعبے کے لیے بجلی کی بندش مکمل طور پر ختم کر دی گئی ہے جو قبل ازیں 8-12گھنٹوں تک ہورہی تھی۔
ظفر یاب نے مزید کہا کہ ملک بھر کے لیے بجلی کی بندش کی یکساں پالیسی نافذ کی جاچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کی بندش میں کمی کے علاوہ اب غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نہیں کی جارہی ( شہری علاقوں میں چھ اور دیہاتی علاقوں میں آٹھ گھنوںتک بجلی کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے‘ ان میں وہ علاقے شامل نہیں جہاں بجلی کی چوری کی شرح زیادہ ہے)۔
قبل ازیں وزیراعظم نواز شریف متعدد بار یہ وعدہ کرچکے ہیں کہ وہ قوم کو بجلی کی بندش سے نجات دلائیں گے لیکن اس کے باوجودملک توانائی کی بدترین کمی کا سامنا کر رہا ہے۔
ان خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ مئی، جون، جولائی اور اگست کے مہینوں میں بجلی کی بندش بڑھ جائے گی کیوں کہ اس عرصہ کے دوران موسمِ گرما عروج پر ہوتا ہے۔
لیکن وزارتِ پانی و بجلی کے افسر کہتے ہیں کہ جنوری 2015ء سے حکومت نے لائن لاسز اور بجلی کی چوری پر قابو پانے کے لیے چند اہم اقدامات کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان اقدامات میں فریکوئنسی سکیم کے تحت خودکار طور پر لوڈشیڈنگ، پاور ہائوسز اور گرڈ سٹیشنوں پر ٹرپنگ ختم کرنا،اوور لوڈ پر قابو پانا اور وولٹیج کو منتظم کرنے کا میکانزم شامل ہے۔
اسلام آباد کے سنگم پر واقع گیریژن شہرراولپنڈی سے تعلق رکھنے والی ایک سکول ٹیچر ارم اعجاز کہتی ہیں:’’ ہم حکومت کے بجلی کے مسائل حل کرنے کے وعدوں پر مزید یقین نہیں کرسکتے۔‘‘
انہوں نے شکایت کی کہ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باعث ان کی بجلی سے چلنے والی مصنوعات جیسا کہ ریفریجریٹر اور واشنگ مشین خراب ہوگئی ہے۔
ہزارہ یونیورسٹی کے شعبۂ معاشیات کے سربراہ اور معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر سہیل فاروق کہتے ہیں کہ کہ بجلی کی مستقل بنیادوں پر بندش کے باعث نہ صرف مقامی بلکہ بیرونی سرمایہ کاری بھی براہِ راست متاثر ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کی بندش کے باعث نہ صرف آجر بلکہ گاہکوں کو بھی اضافی اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا:’’ مثال کے طور پر جب بجلی کی بندش ہورہی ہو تو ایک صفحے کی فوٹوکاپی کروانے کے دو روپے کی بجائے پانچ روپے ادا کرنا پڑتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر سہیل فاروق نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ ہی بجلی کی بندش سے ملازمین کی کارکردگی پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ڈیڈلائن پر کام مکمل نہ کرنے کے منفی اثرات ایک بار پھر آجروں اور گاہکوں پر مرتب ہوتے ہیں۔
ان سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ کیا حکومت بجلی کے بحران پر قابو پالے گی؟ انہوں نے کہا:’’ نہیں! یہ اس قدر آسان نہیں ہے کیوں کہ اس حوالے سے تشکیل دیے جانے والے منصوبے حقیقت پسندانہ نہیں ہیں۔‘‘
خالد کیانی گزشتہ کئی برسوں سے معاشی امور پر تجزیے لکھ رہے ہیں‘ انہوں نے حکومت کے 2018تک 10ہزار میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کرنے کے دعوئوں کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا:’’ میں پُریقین نہیں ہوں کہ ہم اگلے 10برسوں کے دوران بھی اضافی بجلی پیدا کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔‘‘ خالد کیانی نے مزید کہا کہ اس وقت ملکی معیشت بدترین انحطاط کا شکار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت حقیقتاً بیرونی سرمایہ داروں کو خوش کرنا چاہتی ہے تو بجلی کی بندش پرفی الفور قابو پایا جائے جس سے بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے ’’غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ‘‘ ختم کرکے ایک مثبت اقدام ضرور کیا ہے۔
اسلام آباد میں قائم اتفاق سٹیل فیکٹری کے ایک افسر نے ، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیںہے، کہا کہ حکومت نے رواں برس صنعتی شعبہ کے لیے لوڈشیڈنگ ختم کردی ہے۔
انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا:’’ رواں برس بجلی کی بندش نہ ہونے کے باعث گزشتہ برسوں کی نسبت صنعتی شعبہ بلاتعطل کام کر رہا ہے۔‘‘
سمال بزنس انٹرپرائزز راولپنڈی کے عہدیدار شاہ نواز نے کہا کہ بجلی کی مستقبل بنیادوں پر بندش کے چھوٹے کاروبار پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
انہوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’ ہم بہ ظاہر بجلی کے چھوٹے جنریٹرز پر انحصار کر رہے ہیں جن کے باعث ہمارا روزانہ کا منافع جنریٹرز سے بجلی حاصل کرنے پر صرف ہوجاتا ہے۔‘‘
وزارتِ پانی و بجلی کے افسر نے یہ تفصیل بیان کرنے کی بجائے کہ دعوئوں کے مطابق بجلی کی مذکورہ پیداوار کس طرح حاصل کی جائے گی اور کون ان منصوبوںکے لیے فنڈنگ فراہم کرے گا؟ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ’’ہدف حاصل کرنے کے لیے ایک متنوع پالیسی‘‘ اختیار کی ہے۔
حکومتی پالیسی کے تحت زیادہ بجلی پیدا کرنے کے لیے ٹرانسمیشن لائنوں پر سرمایہ کاری، کوئلے اور مایع قدرتی گیس کے علاوہ بڑے پیمانے پر ہائیڈل منصوبوں پر کام جاری ہے۔
ڈاکٹر سہیل فاروق سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ بجلی کی بندش سے بیرونی سرمایہ کاری کس طرح متاثر ہوتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاراس وقت سرمایہ کاری کرنے میں تذبذب کا مظاہرہ کرتے ہیں جب بجلی کی بندش سے ان کا کام رُک جائے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ بجلی کے بریک ڈائون کے دوران بیرونی و مقامی سرمایہ کاروں کو ان گھنٹوں کی مزدوری بھی اداکرنا پڑتی ہے جن میں انہوں نے کچھ مینوفیکچر نہیں کیا ہوتا۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here