اسلام آباد (رحمت محسود سے)ایک نئی تحقیق کے مطابق پاکستان کے بارانی قبائلی علاقے سرسبز و شاداب ہوچکے ہیں کیوں کہ فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے باعث لوگوں کی علاقے سے نقل مکانی کے باعث جنگلات لہلہانے لگے ہیں۔
2015ء میں ماحولیات پر ہونے والی ایک تحقیق سے یہ منکشف ہوا کہ لکڑی کاٹنے والے رہائشیوں کی ایک بڑی تعداد کے نقل مکانی کرجانے کے باعث مختلف انواع کے درختوں اور پودوں کی افزئش میں 95فی صد اضافہ ہوا ہے جن میں زیتون، شاہ بلوط، گوگوا، دیودار اور چلغوزے کے درخت و پودے شامل ہیں۔
معروف ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر لال بادشاہ کے تحقیقی مقالے بعنوان ’’درختوں کا تحفظ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سبزیوں کی کاشت پر اثرات‘‘ سے یہ منکشف ہوا کہ درختوں کی مختلف انواع میں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں سے مقامی آبادی نے سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں کے باعث ملک کے دیگر علاقوں کی جانب نقل مکانی کی ہے،غیر معمولی طور پر 95فی صد اضافہ ہوا ہے۔
مذکورہ تحقیق کے مطابق علاقے میں شورش سے قبل مقامی آبادی لکڑی کو نہ صرف گھریلو بلکہ کاروباری استعمال میں لاتی تھی۔
اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خاندانوں کے نقل مکانی کرنے سے ’’ انواع و اقسام کے جنگلات اور سبزیوں پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔‘‘
نیوز لینز پاکستان نے کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور ماہرِماحولیات ڈاکٹر خالد خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا:’’ جی ! ظاہر ہے… آبادی نہ ہونے کے باعث جنگلات ہرے بھرے ہوگئے ہیں کیوں کہ اب ان کو کاٹنے والا کوئی نہیں ہے ۔ درخت اور پودے اس وقت فطرت کے تر قریب ہوتے ہیں جب کوئی انسان ان کی بقا کے لیے خطرات پیدا نہیں کرتا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ آبادی کی نقل مکانی تو ایک اہم پہلو ہے ہی،جنگلات کا تحفظ بھی اسی صورت میں یقینی بنایا جاسکتا ہے جب لوگوں کو درختوں کی ایک خاص حد تک کٹائی کی اجازت حاصل ہو۔
ڈاکٹر لال بادشاہ نے کہا کہ 2009ء میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن سے قبل مقامی آبادی جنگلات سے درختوں کو گھریلو اور کاروباری مقاصد کے لیے کاٹتی رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنگلات اس وقت بنجر ہوگئے جب تعمیراتی مقاصد کے لیے جنگلات سے لکڑی کاٹنے کے لیے ٹمبر مافیا نے درختوں کی کٹائی شروع کردی۔
اس تحقیق سے یہ بھی منکشف ہواکہ پاکستانی فوج کی طالبان کے خلاف کارروائی کے باعث آبادی کی ایک بڑی تعدادکے نقل مکانی کرنے کی وجہ سے ’’علاقے میں سبزیوں کی کاشت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے۔‘‘
اس خطے کو بڑے پیمانے پر دہشت گردوں کے لانچنگ پیڈ کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے جہاں سے نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان میں بھی افغان اور بیرونی فورسز پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔
2009ء میں فوج کا طالبان کے خلاف اولین فوجی آپریشن شروع ہوا تو مقامی آبادی فوری طور پر اندرونِ ملک نقل مکانی کرنے لگی ۔
تحقیق سے یہ بھی منکشف ہوا کہ مقامی آبادی کی نقل مکانی سے قبل ’’2005ء سے 2008ء کے دوران درختوں کی مجموعی کٹائی کا حجم تقریباً83,619میٹرک ٹن رہا جب کہ 2009ء سے 2014ء کے دوران یہ شرح گر کر صفر ہوگئی۔‘‘ ڈاکٹر لال بادشاہ نے یہ تجویز بھی دی کہ محکمۂ جنگلات مقامی آبادی کی ان کے علاقوں میں بحالی کے بعد ان کو ایک خاص حد تک درختوں کی کٹائی کی اجازت دے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ ایک خاص حد میں رہتے ہوئے درختوں کی کٹائی کا مطلب یہ ہے کہ مقامی آبادی ان کو جڑوں سے نہ اکھاڑے جس سے جنگلات کے پھلنے پھولنے میں مدد ملے گی۔‘‘
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے منسلک ایک اور ماہر ماحولیات اور پروفیسر ڈاکٹر زمان شیر نے کہا کہ سبزیوں کے پتے ماحول پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ ہرے پتوں والی سبزیوں سے ماحول کو صاف رکھنے میں مدد حاصل ہوتی ہے۔‘‘
ایک قبائلی بزرگ نور نواز، جن کا خاندان حال ہی میں قبائلی علاقے میں واپس آبادہواہے، کہتے ہیں:’’ جی بالکل! جنگلات سرسبز ہوچکے ہیں اور گھاس لہلہا رہی ہے لیکن جیسا کہ اب مقامی آبادی کی بحالی کا عمل شروع ہوچکا ہے تو انہوں نے پہلے ہی درختوں کو لکڑیاں جلانے کے لیے کاٹنا شروع کر دیا ہے۔‘‘
لیکن ڈاکٹر لال بادشاہ کہتے ہیں کہ حکومت کو واپس قبائلی علاقوں کا رُخ کرنے والے خاندانوں کودرختوں کے تحفظ کے لیے متبادل ایندھن کے طور پر گیس اور بجلی کی سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک اور قبائلی محمد انور نے کہا کہ ٹمبر مافیا نے پہلے سے ہی درختوں کی کٹائی شروع کر دی ہے جنہیں عمارتوں میں استعمال کرنے کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں بھیجا جارہا ہے۔
ڈاکٹر لال بادشاہ کا کہنا تھا کہ آگ جلانے کے لیے لکڑی کے حصول کے لیے جنگلات کی کٹائی کوئی بہت بڑے نقصان کا سبب نہیں بنتی لیکن اس کا کاروباری استعمال خطے کو بنجر کرتے ہوئے جنگلات کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔
ڈاکٹر لال بادشاہ اور دیگر ماہرینِ ماحولیات نے وزیرستان کی پیرگڑھ پہاڑیوں میں سبزیوں اور مقامی نباتات کے بارے میں تحقیق کی ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں جیسا کہ مانسہرہ، صحرا نارہ، چگھرزئی، چکوال، سوات اور کوٹلی، آزاد کشمیر میں اس حوالے سے تحقیق ہوچکی ہے۔
جنوبی وزیرستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث پانچ برس تک مقامی آبادی کی جانب سے درختوں کی کٹائی نہ کیے جانے کی وجہ سے اب ہر جانب سبزیاں لہلہاتی نظر آتی ہیں۔ جڑی بوٹیوں، جھاڑیوں اور درختوں کے مختلف مقامات سے بالترتیب 1*1m2, 2*4m2اور 2*10m2کواڈریٹ کے تحت نمونے حاصل کیے گئے۔
مزیدبرآں، سماجی محاذ پر اس تحقیق سے یہ منکشف ہوا کہ قبائلی علاقوں اور جنوبی وزیرستان میں جاری شورش کے باعث تعلیمی ادارے بند ہوچکے ہیں۔ قبائلی علاقے میں فوجی آپریشن اور طالبانائزیشن سے قبل ایک شخص گھر کا کفیل ہوتا جب کہ اس کے خاندان کے تمام ارکان اس پر ہی معاشی طور پر انحصار کر رہے ہوتے۔
مذکورہ تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ اندرونِ ملک اور بالخصوص جنوبی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کے ارکان نے اب ٹیکسی ڈرائیوری، دکانداری اورروزمرہ کی اشیاء فروخت کرنے کے کاروبار شروع کر دیے ہیں۔
تحقیق کے مطابق نقل مکانی کرنے کے بعد مقامی خاندانوں کی ماہانہ آمدن میں اضافہ ہواہے اور ’’نقل مکانی کرنے والے ایک خاندان کی ماہانہ آمدن اپنا علاقہ چھوڑنے سے قبل اگراوسطاً 15ہزار روپے تھی تو وہ 60ہزارروپے ہوگئی ہے۔‘‘
مذکورہ تحقیق میں مزید کہا گیاہے کہ درختوں کے ذخائز کو پانچ برسوں تک محفوظ رکھا گیا جو عمومی طور پر ان کے تحفظ کا ایک مناسب دورانیہ ہے۔ سبزیوں کی کاشت بڑی حد تک بڑھ گئی۔ جھاڑی دار پودوں نے درختوں کا روپ دھار لیا، زیتون، بلوط اور گوگوا ایک بار پھر سرسبز و شاداب ہوگئے۔ اس تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ نباتاتی فلورا ایک بار پھربنجر زمین پر اُگایا گیا ہے اور گھاس کا سرسبز و شاداب غالیچہ سا بچھ چکا ہے۔ مذکورہ تحقیق اس بنا پر پانچ سے سات برسوں کے لیے درختوں کے تحفظ کی تجویز دیتی ہے جس کے بعد ہی قدرتی فلورا واپس آسکتا ہے۔
ڈاکٹر لال بادشاہ نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا:’’ ایک قوم کے طور پر اگر ہم جنگلات کو ہرا بھرا رکھتے ہیں تو اس سے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے میں مدد ملے گی اور سیلاب و زمینی کٹائو پرقابو پایا جاسکے گا۔‘‘