اسلام آباد ( رحمت محسود سے)حکومت ملک میں انتہا پسندی اور تشدد کے گھن چکر کے لیے تمام مدارس کے اکائونٹس کا آڈٹ کرانے کی پالیسی پر عملدرآمد کرنے کے لیے تیار ہے۔
وفاقی وزیربرائے مذہبی امور سردار محمد یوسف نے نیوز لینز پاکستان سے مختصرمگر جامع گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تمام مدارس اپنی آڈٹ اور دیگر اخراجات کے بارے میں رپورٹ پیش کرنے کے پابندہوں گے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ حکومت کے آڈٹ کرنے کے طریقۂ کار کے بارے میں کوئی تفصیل فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ عوام میں یہ تاثر عمومی طور پر فروغ پذیر ہے کہ ملک بھر میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ملوث دہشت گرد وں کا تعلق کسی نہ کسی طور پر مدارس سے ہوتاہے۔ سردار محمد یوسف نے یہ بھی کہا کہ حکومت مدارس کا آڈٹ کرنے کے لیے طریقۂ کار اور ضابطہ تشکیل دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے تاکہ ان کے معاشی ذرائع خفیہ نہ رہیں جب کہ دوسری جانب مذہبی رہنمائوں کی جانب سے ’’اس فیصلے کے خلاف شدید مزاحمت‘‘ کے بارے میں خبردار کیا جارہا ہے۔ مدارس یا مسلمانوں کے مذہبی تعلیمی اداروں میں مسلمان بچے خطیب یا پھر مذہبی مبلع بننے کے لیے داخلہ لیتے ہیں لیکن مدارس کے بیش تر طالب علم اپنا تعلیمی سلسلہ ادھورا چھوڑ دیتے ہیں۔ راولپنڈی میں ایک مذہبی مدرسے میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے 48برس کے استاد مولوی عباس شاہ خوف زدہ ہیں، وہ کہتے ہیں: ’’ اس اقدام سے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کی بڑی تعداد متاثر ہوگی۔‘‘ انہوں نے اس خوف کا اظہار بھی کیا کہ حکومت کی جانب سے مدارس کا آڈٹ کرنے سے ان میں سے کچھ بند بھی ہوسکتے ہیں۔
ملک بھر میں مدارس کی ایک بڑی تعدادکی تشدد اور انتہاپسندی کو فروغ دینے کے باعث نگرانی کی جارہی ہے۔مولوی عباس شاہ نے کہا:’’ آرمی پبلک سکول میں ہونے والے قتلِ عام کے باعث حکومت پر یہ دبائو بڑھا کہ وہ ملک بھر میں قائم ہزاروں مدارس کی نگرانی کرے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ان کے مدرسے میں چار اساتذہ خدمات انجام دے رہے ہیں جن میں سے دو 15ہزار روپے تنخواہ لے رہے ہیں۔ دو اساتذہ اسلامی فقہ کے ماہر ہیں جب کہ باقی صرف اسلامیات میں گریجویٹ ہیں۔‘‘
مولوی عباس شاہ نے کہا کہ ان کے مدرسے میں 150طالب علم زیرِ تعلیم ہیں جن میںسے 100دن کے اوقات میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جب کہ باقی تمام مدرسے میں رہائش پذیر ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا:’’ ان طالب علموں کو مدرسے کی انتظامیہ کی جانب سے دو وقت کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ مدرسے کی انتظامیہ جمعہ کی نماز کے دوران لوگوں سے چندہ اکٹھا کرتی ہے ’’جو آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔‘‘انہوں نے استفسار کیا کہ جب کوئی مدرسہ دہشت گردوں کی مدد میں براہِ راست ملوث نہیں ہے تو پھر حکومت کیوں مداخلت کرنے کے درپے ہے؟
پاکستان علما کونسل، مذہبی رہنمائوں کی ایک تنظیم ہے، کے سربراہ مولانا طاہر اشرفی سے جب رابطہ کیا گیاتو انہوں نے نیوزلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم مدارس کی رجسٹریشن یا ان کی آڈیٹنگ کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کریں گے۔ہم صرف اس اَمر پر تشویش کا شکار ہیں کہ مدارس کا تقدس پامال نہ ہو۔‘‘ لیکن انہوں نے مدارس کے تقدس کی کوئی وضاحت نہیں کی۔
تاہم کچھ خودمختار تجزیہ کاریہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ اس فیصلے کے خلاف مدارس سے منسلک افراد کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آئے گا۔
خودمختاد دفاعی اور سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے کہاکہ مذہبی رہنماء ضرور اپنا ردِعمل ظاہر کریں گے کیوں کہ وہ یہ تصور کرتے ہیں کہ آڈٹ اور احتساب مدارس کے معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ میرا نہیں خیال کہ مدارس کا انتہاپسندی کے فروغ میں براہِ راست کوئی کردار ہے لیکن مذہبی مدارس ذہن سازی کرتے ہیں جس کے باعث انتہاپسندوں کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوتاہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ مدارس کو رجسٹرڈ کرے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ ان میں کون پڑھ رہا ہے یا ان میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے اساتذہ کون ہیں اور ان کی آمدن کے ذرائع کیا ہیں؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے مزید کہا کہ حکومت خوف زدہ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتیں مدارس کو قانون کے دائرہ کار میں لانے کے ضمن میں ان کے ساتھ تعاون کریں گی بھی یا نہیں۔انہوں نے تجزیہ کیا:’’حکومت میں مدارس کے ہمدرد بھی شامل ہیں۔ مدارس کی رجسٹریشن اور ان کو مرکزی دھارے میں لانے سے ماحول میں واقعتاً بہتری پیدا ہوگی۔‘‘
تاہم وزیر برائے مذہبی امور نے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا کہ حکومت کب تک اس فیصلے پر عملدرآمد کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے؟
لیکن ایک انٹرویو میں، ڈاکٹر مولوی تاج محمد نے، جو وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقے وزیرستان میں سب سے بڑا مدرسہ جامعہ دارالعلوم چلا رہے ہیں، کہتے ہیں:’’میں ذاتی طور پرمدارس کے احتساب کی حمایت کرتا ہوں۔ مدارس کو آڈٹ کے معاملے پر مزاحمت نہیں کرنی چاہیے اور وہ ہر طرح سے اپنی شفافیت واضح کریں۔‘‘
ڈاکٹر مولوی تاج محمد نے مزید کہا کہ جامعہ دارالعلوم وزیرستان میں1750طلبا و طالبات زیرِتعلیم ہیںجن میں سے 12سوطالبات ہیں۔طلبا و طالبات کے لیے الگ الگ ہاسٹل قائم کیے گئے ہیں ۔ انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہاکہ ایک استاد کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ 15ہزار روپے ہے جب کہ کم تعلیم یافتہ استاد کو صرف تین ہزار روپے بطورمشاہرہ ادا کیا جاتا ہے۔
مدرسے کے ماہانہ اخراجات تقریباً15لاکھ روپے ہیں جو زکوۃ اور پھلوں و سبزیوں کے باغات کے مالکان کی جانب سے دیے جانے والے عطیات سے پورے کیے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر مولوی تاج محمد کا مزید کہنا تھا:’’ مدرسے کا واحد ذریعۂ آمدن زکوۃ اورجنوبی وزیرستان کے ہیڈکوارٹر وانا کے سبزیوں و پھلوں کے باغات کے مالکان کی جانب سے دیئے جانے والے نقد عطیات ہیں۔ مدرسے کی جانب سے طلبا و طالبات اور اساتذہ کودو وقت کھانا بھی فراہم کیا جاتا ہے۔‘‘
اسلام آباد کی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے رجسٹرڈ و غیر رجسٹرڈ مدارس کی شناخت کرنے کے لیے کیے گئے ایک مشترکہ سروے میں یہ منکشف ہوا کہ صرف اسلام آباد میں 401مدارس کام کر رہے ہیں۔
اس سروے کے مطابق تقریباً 160مدارس کے علاوہ دن کے اوقات میں قرآن کی تعلیم دینے والے 72مراکزکا حکومت کے پاس کوئی ریکارڈموجود نہیں ہے۔
وزارتِ داخلہ کے ایک افسر نے، نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ہم نے آرمی پبلک سکول پر حملے کے فوری بعد اسلام آباد کی انتظامیہ اور پولیس کو وفاقی دارالحکومت میں مدارس کی تعداد معلوم کرنے کے لیے سروے کرنے کے احکامات جاری کردیے تھے۔‘‘
فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے اعداد و شمار سے یہ منکشف ہوتا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں سرکاری سکولوں کی تعداد 422ہے۔
سروے کے مطابق ان مدارس میں زیرِتعلیم طالب علموں کی مجموعی تعداد 31,796ہے جن میں سے 17,419کا تعلق جڑواں شہروں راولپنڈی و اسلام آباد سے ہے جب کہ دیگر 14,377طالب علم فاٹا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا سے تعلق رکھتے ہیں۔
مذکورہ افسر کا کہنا تھا کہ قوانین کے مطابق ایک مدرسے رجسٹرڈ ہونے کے لیے دو جہتی عمل سے گزرنا پڑتا ہے جیسا کہ وہ ایک غیر سرکاری تنظیم کے طور پر اسلام آباد انتظامیہ میں رجسٹرہو اور دوسرا ، پاکستان مدرسہ بورڈ میں اس کے ریکارڈ کا اندراج ہو، موخرالذکر ادارہ وزارتِ مذہبی امور کے زیرِانتظام کام کر رہا ہے۔
راولپنڈی کے ایک مدرسے میں زیرِتعلیم 15برس کے نور محمد نے کہا کہ وہ بلامعاوضہ خوراک اور کھانا حاصل کر رہے ہیں اور نجی یا سرکاری سکول میں داخلہ حاصل نہیں کرسکتے۔ اس نے پریشانی سے کہا:’’ اگر مدارس بند کر دیے جاتے ہیں تو میں پریقین نہیں ہوں کہ میرا مستقبل کیا ہوگا اور اس صورت میں میَں کیا کروں گا؟‘‘
نور محمد کے والد 38برس کے بلال خان نے کہا:’’ ان کو اس لیے اپنے بیٹے کو مدرسے میں داخل کروانا پڑا کیوں کہ وہ نجی سکولوں کی بھاری بھرکم فیس ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔انہوں نے استفسار کیا:’’ زندگی بہت مشکل ہے۔ میرے پانچ بچے ہیں اور میں بہ مشکل ان کی کفالت کر پاتا ہوں۔ میں ان کو کس طرح بہتر طور پر زیورِ تعلیم سے آراستہ کرسکتاہوں؟‘‘
مارچ 2014ء میں وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے پارلیمنٹ میں اولین قومی انٹرنل سکیورٹی پالیسی پیش کی تھی جس کا مقصدحکومت کی جانب سے 22ہزار مدارس کو قانونی دھارے میں لانا تھا۔