پشاور ( اظہار اللہ سے) 24برس کے بلال بخت نے حال ہی میں پشاورکی ایک نجی یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی ہے ‘ وہ اپنی گریجویشن مکمل ہونے پر خوش ہیں اور اس حوالے سے اپنے دوست اور رشتہ داروں سے مبارک باد کے پیغامات موصول کر رہے ہیں۔ لیکن ایک تہنیتی پیغام ان کو موصول نہیں ہوااور وہ ان کے والد کا ہے جو 2001ء میں امریکہ کے خلاف جہاد کرنے کے لیے افغانستان گئے تھے اور لاپتہ ہوگئے تھے۔
انہوں نے پُرنم آنکھوں کے ساتھ نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت 10برس کے تھے جب ان کے 40برس کے والد شیریں بخت جہاد کے لیے افغانستان جانے کی غرض سے صوفی محمد کے لشکر میں شامل ہوئے۔
بلال بخت نے کہا:’’ مجھے یاد نہیں ہے لیکن والدہ بتاتی ہیں کہ وہ گھر کا سامان لانے کے لیے بازار گئے تھے اور جب واپس آئے تو انہوں نے افغانستان جانے کے لیے سامان باندھنے کا کہا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ وہ گئے اور کبھی واپس نہیں آئے اور نہ ہی ان کے زندہ ہونے یا مرنے کے بارے میں کچھ معلوم ہوسکا ہے۔‘‘
شیریں بخت کی طرح 10ہزار جہادی تحریکِ نفاذِ شریعت محمد (ٹی این ایس ایم) کے پرچم تلے یکجا ہوئے جنہوں نے افغانستان کا رُخ کیا، یہ تنظیم 1992ء میں لوئر دیر کی تحصیل میدان میں تشکیل دی گئی تھی جس کا مقصد خیبرپختونخوا کی مالاکنڈڈویژن میں شریعت کا نفاذ تھا۔
انسائیکلوپیڈیا آف ٹیررازم جلد اول کے مطابق ٹی این ایس ایم اس وقت نمایاں ہوئی جب اس نے خیبرپختونخوا ، جو قبل ازیں صوبہ سرحد کہلاتا تھا، میں شریعت کے نفاذ کے لیے مسلح بغاوت کا آغاز کیا۔اس میں مزید کہا گیا ہے کہ 20ستمبر 2001ء کو ٹی این ایس ایم نے سانحہ نو گیارہ کے بعد افغانستان پر امریکی فورسز کے حملے کے خلاف وادئ سوات میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس جلوس میں مقررین نے افغانستان میں امریکی فورسز سے برسرِپیکار طالبان کی مدد کے لیے ’’رضاکار‘‘ فوج تشکیل دینے کی ہدایت کی۔
انسائیکلوپیڈیا کے مطابق مالاکنڈ ڈویژن اور باجوڑ ایجنسی سے تقریباً 10ہزارجہادیوں نے افغانستان جاکر امریکی فورسز سے لڑنے کے لیے ٹی این ایس ایم میں شمولیت اختیار کی جس کی قیادت اس کے سربراہ صوفی محمد اور ان کے داماد اور تحریکِ طالبان پاکستان کے موجودہ سربراہ مولانا فضل اللہ کر رہے تھے۔
ٹی این ایس ایم کا تین سو گاڑیوں پر مشتمل لشکر میدان میں اپنے ہیڈکوارٹر سے روانہ ہوا اورپاک افغان سرحد پر غنی پاس تک پہنچ گیا۔ لشکر کے اراکین کلاشکوفوں، راکٹ لانچرز، میزائلوں، انٹی ایئرکرافٹ گنز، ہینڈ گرینیڈز اور تلواروں سے مسلح تھے۔کتاب میں مختلف خبروں کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ باجوڑ ایجنسی کی سیاسی انتظامیہ نے اس لشکر کو ایجنسی کی حدود سے باہر جانے کی اجازت دے دی تاکہ وہ افغانستان تک پہنچ جائے۔
2012ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے ٹی این ایس ایم پر پابندی عاید کر دی گئی تھی۔
لوئر دیر سے تعلق رکھنے والے سلیم خان نے، جو افغانستان جانے والے اس لشکر میں شامل تھے اور جلال آباد کے ایک شیعہ خاندان کے پاس نو ماہ تک خودساختہ جلاوطن رہنے کے بعد زندہ واپس لوٹ آئے،نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لشکرکی قیادت اس وقت جلال آباد کے گورنر عبدالکبیر کے ساتھ رابطے میں تھی۔
انہوں نے کہا:’’ جلال آباد میں عبدالکبیر اور طالبان قیادت کی جانب سے لشکر کا استقبال کیا گیا۔‘‘
انہوں نے اس وقت پیش آنے والے حالات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ صبح کے چھ بجے جاگے تو امریکی فوج نے اس علاقے پر حملہ کردیا جہاں اس لشکر نے پیراؤ ڈالا تھا۔ انہوں نے کہا:’’ بہت سے ساتھی اس فضائی حملے میں ہلاک ہوگئے جب کہ زندہ بچ جانے والے فرار ہوگئے۔‘‘
ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر موجود ایک تحقیقی مقالے کے مطابق عدالت میں ایک درخواست گزار کی جانب سے صوفی محمد کے خلاف بغاوت کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کرنے کے لیے رٹ دائر کی گئی تھی۔ درخواست گزار نے عدالت میں کہاکہ صوفی محمد کی غلط رہنمائی کے باعث پانچ ہزارسے زائد جہادی ہلاک ہوئے تھے۔
مقالے میں کہا گیا ہے:’’ 2001ء میں امریکی فورسز کے خلاف افغان جہاد کے دوران تین ہزار پاکستانی جہادی لاپتہ ہوگئے تھے۔‘‘
شیریں بخت، جو لاپتہ افراد میں شامل ہیں، کے بڑے بیٹے ناصر بخت نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ گزشتہ 15برسوں سے اپنے باپ کو تلاش کر رہے ہیں جب کہ اس دوران انہوں نے اس حوالے سے ہر متعلقہ دفتر سے رابطہ قائم کیالیکن اس کے باوجود اس بارے میں کوئی معلومات حاصل نہیں ہوسکیں۔
انہوں نے کہا:’’ اس کے باوجود ہم پُرامید ہیں کہ ایک دن وہ میرے چھوٹے بھائی کو گریجویشن کی مبارک باد دینے کے لیے ہمارے ساتھ ہوں گے۔‘‘ انہوں نے حکومت اور وزارتِ خارجہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے باپ کی تلاش میں ان کی مدد کرے۔
خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اہلیت میں اضافے، ایڈووکیسی اور معروضی تحقیق کے ذریعے فروغِ امن کے لیے کوشاں غیر سرکاری ادارے فاٹا ریسرچ سنٹر کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر اشرف علی نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ گزشتہ کئی برسوں سے حل نہیں ہوسکا جب کہ اس حوالے سے انسانی حقوق کے کارکنوں اور حکومت کی جانب سے بھی کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے صوفی محمد کی قیادت میں افغانستان جانے والے لشکر، جو تقریباً10ہزار جہادیوں پر مشتمل تھا، کی حمایت کی گئی اور نہ ہی مخالفت،تاہم اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ پاکستانی حکومت نے لشکر کو امریکی فورسز سے لڑنے کے لیے افغان سرحد پار کرنے سے نہیں روکا تھا۔
پشاورسے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر خادم حسین کہتے ہیں کہ پاکستانی ریاست کی جانب سے ان جہادیوں کو دووجوہات کے باعث افغانستان جانے کی اجازت دی گئی۔انہوں نے کہا کہ اول، ان جہادیوں کے ذریعے خطے کے طالبان کی حمایت حاصل کرنا مقصود تھا اور دوسرا، تذویراتی اہداف پیشِ نظر تھے۔
انہوں نے اس وقت کی پاکستانی ہیئتِ مقتدرہ کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف، جو آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹاکر 2002ء تک ملک کے چیف ایگزیکٹو رہے، متوازی طور پر دو کارروائیاں کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا:’’ ایک جانب تو انہوں نے ملک میں القاعدہ کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ اتحاد کیا اور اس کے تقریباً150سینئررہنماؤں کو گرفتار بھی کیا گیا جب کہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے طالبان کی حمایت کے لیے ان جہادیوں کو افغانستان جانے کی اجازت دی۔‘‘
ڈاکٹر خادم حسین کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا:’’ ویزے اور پاسپورٹ کے بغیر ان جہادیوں کو سرحد پار کرنے کی اجازت دے کر پاکستان نے افغانستان کے ساتھ کیے گئے دوطرفہ اور عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کی۔‘‘
ڈاکٹر اشرف علی نے کہاکہ جہادی جنگ کے لیے تیار تھے اور نہ ہی ان کو کوئی معاشی معاونت حاصل تھی، وہ افغانستان آئے تو بہت سے امریکی فضائی حملوں میں مارے گئے جب کہ زندہ بچ جانے والوں کو افغان حکومت نے حراست میں لے لیا۔
وہ لاپتہ افراد کے معاملے پر گزشتہ کئی برسوں سے کام کر رہے ہیں اور متعدد بار افغانستان جاچکے ہیں‘ ان کا مزید کہنا تھا:’’ اب بھی بہت سے جہادی افغانستان کی جیلوں میں قید ہیں۔‘‘
جب ان سے استفسار کیا گیا کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کیا اقدامات کیے گئے تو انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لیے خیرسگالی کے جذبے کے اظہار کے طور پر وقتاً فوقتاً جہادیوں کورہا کیا جاتا رہاہے۔ ڈاکٹر اشرف علی نے کہا:’’ یہ سب صرف جہاد کرنے ہی نہیں گئے تھے بلکہ ان میں سے بیش تر افغانستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں بھی ملوث تھے۔‘‘
ڈاکٹر خادم حسین نے کہا کہ ان لاپتہ افراد کو افغانستان اور پاکستان میں جنگی قیدیوں کے لیے قائم کیمپوں میں تلاش کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ان کے خاندان ان کے حوالے سے پریشان ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان لاپتہ افراد کے حوالے سے افغان حکومت پر کوئی ذمہ داری عاید نہیں ہوتی کیوں کہ یہ جہادی غیر ریاستی تنظیم تحریکِ نفاذِ شریعت محمدی کے تحت غیرقانونی طور پر افغانستان گئے تھے۔
Home Other Languages Urdu Stories خیبرپختونخوا کے ہزاروں خاندان 2001ء کے افغان جہاد میں لاپتہ ہونے والے...