لاہور: سرطان کے مہلک مرض کا شکار افغان مریضوں کے لیے امید کی ایک کرن

0
5612

: Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzai

لاہور (ثمر محمود سے) پنجاب کاصوبائی دارالحکومت لاہور کینسر (سرطان)کے افغان مریضوں کے لیے امید کی ایک کرن بن چکا ہے کیوں کہ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ لاہور میں ان کا بلامعاوضہ یادوسری صورت میں انتہائی کم اخراجات میں علاج ممکن ہے۔ 
پاکستان میں سرطان کے علاج کے لیے قائم ہسپتالوں میں سے 19پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے زیرِانتظام کام کررہے ہیں۔شوکت خانم میموریل ہسپتال نجی شعبہ میں سرطان کے علاج کا نمایاں ترین ادارہ ہے جب کہ سرکاری شعبہ میں کچھ بڑے ہسپتالوں میں سرطان کے علاج کے لیے مخصوص شعبے قائم ہیں جو اپنی مہارت کے باعث شہرت کے حامل ہیں۔ یہ حقیقت پیشِ نظر رہے کہ 18کروڑ آبادی کے اس ملک میں سرطان کا علاج کرنے کے لیے معالجین کی تعداد ناکافی ہے۔
آگاہی مہم چلائے جانے اور ہنگامی صورتِ حال کے باوجود حکومتی سطح پر اس بیماری سے بچاؤ کے لیے کوئی منصوبہ تشکیل نہیں دیا گیا۔ وفاقی اور صوبائی سطح پرسرطان کے مریضوں کے علاج کے لیے کوئی بجٹ مختص کیاگیا ہے اور نہ ہی کوئی پروگرام شروع کیا گیا ہے جس کے باعث اس حوالے سے کوئی مستند اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔
انمول کینسر ہسپتال سے منسلک ایک ماہر ڈاکٹر غضنفر نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ اور پشاور کے الائیڈ ہسپتالوں میں افغان مریضوں کی ایک بڑی تعداد زیرِعلاج ہے۔ دنیا کے دیگر علاقوں کی طرح پاکستان میں بھی سرطان کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے جہاں ہربرس تقریباً80ہزار افراد اس بیماری کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک جانب تو سرطان کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری جانب اس کا علاج بھی مہنگا ہوتا جارہا ہے۔ مریضوں کی اکثریت کا تعلق معاشرے کے پسے ہوئے طبقات سے ہوتا ہے جس کے باعث وہ علاج کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔
ڈاکٹر غضنفر نے مزید کہا کہ انمول ہسپتال میں ملک کے تمام علاقوں سے آئے ہوئے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ ہم مریضوں کو ہسپتال میں داخل کرتے ہوئے ان کی بیماری کی شدت اور مالی حالات کو پیشِ نظر نہیں رکھتے۔ 
انہوں نے کہا:’’ اس حوالے سے کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن افغان مردوں میں معدے اور خواتین میں چھاتی اور رحم کاسرطان عام ہے۔‘‘
انہوں نے افغان مردوں میں معدے کے سرطان کی شرح میں اضافے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہاکہ اس کا تعلق بڑی حد تک ان کے طرزِ زندگی سے ہے۔ وہ بہت زیادہ قہوہ پیتے ہیں اور نسوار استعمال کرتے ہیں جو منہ کے سرطان کی وجہ بنتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ انتہائی ایمرجنسی کی صورت میں ہی ڈاکٹر سے اپنا طبی معائنہ کرواتے ہیں۔
انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے کوئی خاص شواہد دستیاب نہیں ہیں کہ افغانستان میں گزشتہ ایک دہائی سے جاری جنگ اور افغانوں میں سرطان کے بڑھتے ہوئے مرض کے درمیان کوئی تعلق تلاش کیا جاسکے۔
پشاور میں قائم انسٹی ٹیوٹ آٖ ف ریڈیو تھراپی اینڈ نیوکلیئر میڈیسن (آئی آر این یو ایم) کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں سرطان کے مریضوں کی مجموعی تعداد کے بارے میں کوئی اندازہ مرتب نہیں کیا جاسکتا لیکن متعلقہ محکموں کے مطابق ملک میں سرطان کے مریضوں کی تعداد تین لاکھ تک ہے جن میں سے تقریباً43,585کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے‘ یہ واضح رہے کہ ان میں سے 5,658صرف ایک برس 2014ء میں رجسٹرڈ ہوئے۔ یہ اعداد و شمار حال ہی میں آئی آراین یو ایم کے زیرِاہتمام سرطان پر ہونے والے ایک آگاہی سیشن کے دوران پیش کیے گئے۔
شوکت خانم کینسر ہسپتال نے ملک میں سرطان کے مریضوں کی تعداد کے بارے میں کوئی اعداد و شمار مرتب نہیں کیے۔
لاہور میں قائم شوکت خانم کینسر ہسپتال (ایس کے ایم ٹی ایچ) نجی شعبہ میں قائم سب سے بڑا فلاحی ادارہ ہے۔ یہ اپنے اخراجات چندوں ور عوام کی جانب سے دیے گئے عطیات سے پورے کرتا ہے۔
نیوزلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے ایس کے ایم ٹی ایچ کے ترجمان خواجہ نذیر نے کہا:’’ افغان مہاجرین اور پشتونوں کی ایک بڑی تعداد شوکت خانم ہسپتال کا رُخ کرتی ہے کیوں کہ مریضوں کا بلامعاوضہ علاج کیا جاتا ہے جس کے باعث فطری طور پر یہ ہسپتال سرطان کے ہر مریض کا اولین انتخاب ٹھہرتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ ہم ہسپتال میں صرف ان مریضوں کو داخل کرتے ہیں جن کے بچنے کا کوئی امکان ہو کیوں کہ ہم عطیہ کی گئی رقوم ان مریضوں پر خرچ نہیں کرسکتے جو مرض کی آخری سطح پر پہنچ گئے ہوں۔ اس حوالے سے ہماری پالیسی واضح ہے۔‘‘
خواجہ نذیر نے مزید کہا کہ ہم ان مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں میں بھیج دیتے ہیں جن کے بچنے کا کوئی امکان نہ ہو۔
انہوں نے افغان اور پشتون مریضوں کی ایک بڑی تعداد کے ہسپتال کا رُخ کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ (مریض)یہ ادراک رکھتے ہیں کہ ہسپتال میں سرطان کا بلامعاوضہ علاج کیا جاتا ہے لیکن ہسپتال کی مریضوں کو داخل کرنے کی اپنی پالیسی ہے اور صرف ان مریضوں کو ہسپتال میں داخل کیا جاتا ہے جن کا علاج ممکن ہوجب کہ دیگر مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں میں بھیج دیاجاتا ہے۔
انہوں نے اس تاثر کو رَد کیا کہ ہسپتال میں افغان اور پشتون مریضوں کے حوالے سے تعصب برتا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک مریض اپنے پس منظر سے قطأ نظر صرف ایک مریض ہوتا ہے۔
پشتون اور افغان مریضوں کے اجنبی زبان یعنی پشتو بولنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے خواجہ نذیر نے کہا کہ یہ مسئلہ ابتدا میں ضرور درپیش تھا لیکن اب ہسپتال سے پشتو بولنے والے ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل عملہ منسلک ہے۔
انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ اس حوالے سے کوئی تحقیق کی گئی ہے اور نہ ہی اعداد و شمار دستیاب ہیں جن سے افغان اور پشتونوں میں سرطان کے مرض کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجوہات کا تعین کیا جاسکے۔
خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی افغان مہاجر خاتون گل بی بی اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ معمول کا جیون بیتا رہی تھیں جب ان پر یہ منکشف ہوا کہ وہ چھاتی کے سرطان کا شکار ہوچکی ہیں۔ انہوں نے ناخواندہ اور آگاہی نہ ہونے کے باعث ابتدا میں اپنی بائیں چھاتی میں درد کو معمول کا ایک معاملہ خیال کیا۔ جب درد ناقابلِ برداشت ہوگیا تو وہ طبی معائنہ کروانے پر مجبور ہوئیں ۔بعدازاں طبی رپورٹوں میں چھاتی کے سرطان کی تشخیص ہوگئی۔ گل بی بی ابتدا میں انسٹی ٹیوٹ آف ریڈیوتھراپی اینڈ نیوکلیئر میڈیسن پشاور میں زیرِ علاج رہیں جہاں سے انہوں نے بالآخر لاہور کے انمول کینسر ہسپتال کا رُخ کیا جہاں پر ان کی چھاتی کاآپریشن ہوا اور وہ مستقل طور پر اپنا علاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
گل بی بی ان افغان مہاجرین میں سے ایک ہیں جو سرطان کی مختلف اقسام میں سے ایک کا سامنا کر رہی ہیں۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے ہسپتال میں ٹوٹی پھوٹی اُردو ( ان کی مادری زبان پشتو ہے) میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ خوش قسمت تھیں کہ ان کو بروقت طبی امداد مل گئی جس کے باعث ان کی زندگی بچ گئی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کے خاندان نے اس سارے عمل کے دوران بہت زیادہ تکلیف برداشت کی ہے۔ ان کے علاقے میں چوں کہ ہسپتال نہیں ہیں جس کے باعث ان کا خاندان ان کے علاج کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ بھی اس بیماری کے بارے میں آگاہ نہیں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس بیماری کے بارے میں علاج کے دوران پتہ چلا اور اب ان پر یہ ادراک ہوا ہے کہ بہت سی افغان خواتین بہرطور پر ایسی ہیں جو چھاتی کے سرطان یا اس کی دیگر اقسام سے متاثر ہیں۔
شوکت خانم ہسپتال میں زیرعلاج خون کے سرطان کی مہلک بیماری کو شکست دینے والی کابل کی 13برس کی مریم نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی صحت یابی پر خوش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کا تمام تر علاج بلامعاوضہ ہوا کیوں کہ ان کا خاندان علاج کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا تھا۔
لبلبے کے سرطان میں مبتلا مریض زمان خان کے تیمار دار نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تک خاصی تاخیر ہوچکی تھی جب اس (زمان) کو بیماری کے بارے میں پتہ چلا۔ انہوں نے کہا کہ اس کی بیماری ناقابلِ علاج ہوچکی ہے جس کے باعث اب وہ صرف درد میں کمی کے لیے ہی ہسپتال کا رُخ کرتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here