لاہور (شفیق شریف سے) پنجاب بھر میں جیل حکام کی جانب سے حساس جیلوں میں قیدیوں کے موبائل فون کے استعمال کی روک تھام کے لیے نصب کیے گئے موبائل فون جیمرزکے باعث گرد و نواح کی آبادیوں میں سیلولر سروسز بدترین طور پر متاثر ہورہی ہیں۔
پنجاب کے مختلف اضلاع میں ایسی 32جیلیں ہیں جو گنجان آباد علاقوں میں قائم ہے جہاں موبائل فون کے استعمال کنندگان کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ یہ جیلیں شہروں کے مضافات میں قائم کی گئی تھیں لیکن اب ان کے اطراف میں نہ صرف گنجان آبادیاں ہیں بلکہ رہائشی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بھی قائم ہوچکی ہیں۔ ان علاقوں کے باسی سیلولر کمپنیوں سے سروس میں خرابی کے بارے میں شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ کوٹ لکھپت کے رہائشی شہزاد ابدالی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے شکایت کی کہ وہ سنٹرل جیل سے پانچ کلومیٹر دور رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود گزشتہ ایک برس سے غیر تسلی بخش سیلولر سروسز حاصل کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ جب مجھ سے کوئی رابطہ کرتا ہے تو اسے میرا فون بند ملتا ہے اور اگر اتفاقاً کبھی کال مل بھی جائے تو دوسری جانب موجود شخص میری آواز نہیں سن پاتا۔ نئی تھری جی سروسز استعمال کرنابھی نا ممکن ہوچکاہے جس کی وجہ سگنلز کمزور کا ہونا ہے یا وہ بالکل ہی نہیں آتے۔‘‘
شادمان کے رہائشی جواد احمد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا:’’ میں ڈسٹرکٹ جیل لاہور سے دو کلومیٹر دور رہتا ہوں۔ اس علاقے میں ہر سیلولر کمپنی کی سروس غیر تسلی بخش ہے۔ میں سیلولر کمپنیوں کے متعلقہ حکام سے اس بارے میں شکایت کرچکا ہوں لیکن اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔‘‘
سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ جیل لاہور شہرام توقیر خان نے کہا:’’ جیمرز جیل کے صرف نصف حصے کا احاطہ کرتے ہیں۔ یہ دہشت گردوں ، بدنامِ زمانہ مجرموں اور فرقہ ورانہ تشددمیں ملوث قیدیوں کی بارکوں کے باہر نصب کیے گئے ہیں۔‘‘
ایک مقامی سیلولر کمپنی کے ترجمان عامر پاشا نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ جیلوں کے اطراف کی آبادیوں میں رہنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موبائل فون استعمال نہیں کرسکتی جیسا کہ جیمرز کی وجہ سے وہ کال وصول کرسکتے ہیں اور نہ ہی کال کرسکتے ہیں‘ ایس ایم ایس ایم کرنا بھی ممکن نہیں‘ اس کے ساتھ ہی ان کے انٹرنیٹ کی رفتار بھی کم ہوئی ہے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ جیلوں سے خاصے فاصلے پر قائم آبادیوں کے رہایشیوں کو بھی ایسی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیوں کہ جیل حکام نے غیر قانونی طور پر ان موبائل جیمرز کی فریکوئنسی بڑھا رکھی ہے۔‘‘
ان علاقوں میں سیلولر کمپنیوں کے فرنچائز اور ریٹیلرز کے لیے اپنی کاروباری سرگرمیاں انجام دینا مشکل ہورہا ہے جیسا کہ بیلنس اَپ لوڈ کرنے اور رقوم کی منتقلی میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
عامر پاشا نے کہا:’’ بڑھتی ہوئی شکایتوں کے باعث سیلولر کمپنیوں نے اس حوالے سے تحقیق کی جس سے یہ منکشف ہوا کہ جیلوں میں نصب کیے گئے جیمرز کے باعث یہ مسئلہ پیدا ہورہا ہے چناں چہ سیلولر کمپنیوں نے فریکوئنسی ایلوکیشن بورڈ (ایف اے بی) سے سروے کروانے کی درخواست کی جس سے ہمارے خدشات کی تصدیق ہوچکی ہے۔‘‘
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے ترجمان خرم مہران نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فریکوئنسی ایلوکیشن بورڈ، نیشنل ریڈیو اور ٹیلی کام کارپویشن نے اس حوالے سے مشترکہ طور پر جائزہ لیا تھا اور یہ تسلی کی تھی کہ جیلوں میں سیلولر سگنل نہیں آرہے تھے جب کہ جیمرز کے باعث جیلوں کے اطراف میں بھی کوئی مسئلہ پیدانہیں ہورہا تھا۔ کچھ عرصہ تک تو اس حوالے سے کوئی شکایت سامنے نہیں آئی لیکن گزشتہ ماہ لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ملتان، قصور، شیخوپورہ اور بہاولپور میں ایک بار پھر سیلولر کمپنیوں کے سگنلز کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔
سیلولر کمپنیوں کے حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ حکام ان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے جس کے باعث جیل حکام قانون کی پاسداری نہیں کرتے۔ اب تمام سیلولر کمپنیوں کے تکنیکی ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم وزارتِ داخلہ کے نمائندوں سے اس صورتِ حال پر بات کرنے کے لیے ملاقات کرے گی اور انہیں اس بارے میں آگاہ کرے گی۔