خیبر ایجنسی ( اسد خان سے) جب قیصر خان نے اپنے بچپن میں جوڈو کھیلناشروع کی تو انہوں نے یہ سوچا تک نہیں تھا کہ وہ کبھی قومی کھیلوں میں طلائی تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ ان کی عمر تقریباً اتنی ہی ہے جتنا کہ عسکریت پسندی کو شروع ہوئے عرصہ بیت چکا ہے جس نے ان کے آبائی علاقے خیبرایجنسی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے‘ قیصر صرف 16برس کے ہیں اوروہ بچپن سے ہی صرف یہ کھیل کھیلنا چاہتے تھے‘ قبل ازیں ایک بچے کے طور پر اور بعدازاں اذیت ناک اور طویل تنازع سے دور بھاگنے کے لیے جو ان کے قبائلی قصبے میں کھیلوں اور تفریح کی دیگر سرگرمیوں کے لیے زہرِقاتل ثابت ہوا۔
وہ برسوں تک وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں کی خیبر ایجنسی کے قصبے باڑہ سے بس پر جوڈو سیکھنے کے لیے پڑوس کے شہر پشاور کے قیوم سٹیڈیم جاتے رہے جو صوبائی دارالحکومت میں قائم کھیلوں کا کمپلیکس ہے۔ جوڈو ایک ایسا کھیل ہے جس کی کلٹ اپیل ہے لیکن قبائلی علاقوں میں جوڈو کھیلنے والے کھلاڑیوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے ‘ یہ کھیل بڑے پیمانے پرنہیں کھیلا جاتا اور نہ ہی اس کی تربیت دی جاتی ہے‘ یہ ایک جدید مارشل آرٹ اور اولمپک کھیل ہے جو 1882ء میں جاپان میں تخلیق ہوا۔لیکن قیصر خان نے بچپن سے ہی اس کھیل میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ خیبر ایجنسی میں ایک بچے کے طور پر خوف و ہراس کے ماحول میں کچھ نہ کرنے سے نیشنل سپورٹس کمپلیکس میں اس کھیل کی تربیت حاصل کرناقدرے بہتر تھا۔
فاٹا کے سپورٹس ڈائریکٹر محمد ایاز خان نے کہا:’’ گزشتہ چھ برسوں سے فاٹا میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے باعث کھیلوں کی کوئی سرگرمی نہیں ہوئی۔عسکریت پسندوں نے تعلیمی ادارے تباہ کردیے ہیں جب کہ کھیلوں کی سرگرمیاں دم توڑ گئی ہیں۔ بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے خوف کے باعث لوگ ایک جگہ پر یکجا نہیں ہوسکتے۔ فاٹا کے کھلاڑی بہت باصلاحیت ہیں لیکن مواقع کی کمی کے باعث وہ اپنی صلاحیتوں کا ادراک نہیں کرپاتے۔‘‘
جب قیصر خان نے قیوم سٹیڈیم میں جوڈو سیکھنے کے لیے داخلہ لیا تو وہ نہیں جانتے تھے کہ اس عمر کے لڑکے کے لیے کیریئر کے انتخاب کے حوالے سے یہ ایک بہترین فیصلہ تھا جو وہ کرسکتا تھا کیوں کہ شورش سے متاثرہ اس علاقے کے نوجوانوں کے سامنے امید کی کوئی کرن روشن نہیں ہے۔ اول تو یہ کہ قیوم سٹیڈیم واحد سپورٹس کمپلیکس ہے جہاں پر جوڈو کو ایک پیشہ ورانہ کھیل کے طور پر سکھایا جاتا ہے۔ دوسرا، کھیلوں کے نیشنل کمپلیکس ہونے کے باعث یہاں پر باصلاحیت کھلاڑیوں کو قومی ٹیم میں شامل ہونے کے لیے تربیت فراہم کرنے کے علاوہ تجاویز بھی دی جاتی ہیں۔
مقامی کھلاڑی کہتے ہیں کہ طویل عرصہ سے فاٹا کے کھلاڑی تربیت حاصل کرنے کے لیے خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی کھیلوں کی سہولیات پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں‘ نوجوانوں کو کھیلوں کی جانب راغب کرنے کے لیے سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کو تشدد اور عسکریت پسندوں کے نظریات سے متاثر ہونے سے محفوظ رکھا جاسکے۔
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن سے منسلک فاٹا اولمپک ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری شاہد شنواری کہتے ہیں:’’ ہم پریقین ہیں کہ اگر حکومت قبائلی علاقوں میں کھیلوں کی سرگرمیوں کو فروغ دیتی ہے تو دہشت گردی اور پُرتشدد کارروائیوں کا تدارک ممکن ہے۔‘‘
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2006ء سے 2010ء کے دوران فاٹا میں کھیلوں کی ہر قسم کی سرگرمی معطل رہی۔ خیبر، مہمند اور باجوڑ ایجنسیوں میں عسکریت پسندی اور فوجی آپریشن کے باعث لوگ نقل مکانی کرنے یا پھر اپنے گھروں تک محدود رہنے پر مجبور گئے جس کے باعث کھیلوں کے میدانوں میں ویرانی چھا گئی۔
کچھ عرصہ کے لیے تو قیصر خان کو یہ محسوس ہوا کہ ان کے اپنے پسندیدہ کھیل میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے منصوبے درست سمت میں جارہے ہیں۔ لیکن تب 2009ء میں سرحدی قصبوں سے عسکریت پسندی نے جنگل کی آگ کی طرح پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے لڑکے قیصر کی اس وقت تمام امیدیں دم توڑ گئیں جب 2009ء میں ان کے گاؤں پر عسکریت پسندوں نے مارٹر گولوں سے حملہ کیا تو ان کے والد ہلاک ہوگئے‘ وہ خاندان کے واحد کفیل تھے۔اس وقت قیصر خان کی عمر محض 10برس تھی۔
اسی برس خیبر ایجنسی میں عسکریت پسندوں کے خلاف ہونے والے فوجی آپریشن کے باعث قیصر کا خاندان نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگیا۔ ان کاخاندان جلوزئی کیمپ میں آباد ہوا‘ آئی ڈی پیز کا یہ سب سے بڑا کیمپ ضلع نوشہرہ میں بسایا گیاہے۔ لیکن قیصر نے جوڈو کا کھیل نہیں چھوڑا‘ وہ پشاور کے قیوم سپورٹس کمپلیکس جاتے جہاں پر ایک استاد جوڈو کے کھلاڑیوں کو تربیت دیتے۔
شاہد شنواری کے مطابق 2010ء سے 2014ء کے دوران حکومت نے فاٹا اور خاص طور پر مہمند، باجوڑ، کرم اور خیبر ایجنسی میں کھیلوں کے فروغ پر توجہ مرکوز کی ‘ لیکن جنگ سے متاثرہ باڑہ تحصیل میں ایسا ممکن نہیں ہوسکا جو قیصر خان کا آبائی قصبہ ہے جہاں عسکریت پسندی کی کارروائیوں اور فوجی آپریشنوں کے باعث امن و امان کے حالات تاحال خراب ہیں۔
شاہد شنواری کہتے ہیں کہ 2010ء کے بعد فاٹا کے کھلاڑیوں نے تمام کھیلوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا:’’ ہم نے مہمند، باجوڑ اور خیبر ایجنسیوں میں قبائلی ایجنسیوں کے درمیان کھیلوں کے ٹورنامنٹ منعقد کیے جن میں شائقین کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی۔ حکومت بھی کھیلوں کے فروغ کے ذریعے عسکریت پسندی اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتی ہے لیکن اس حوالے سے عملی طور پر کوئی کام نہیں ہوا۔‘‘
شاہد شنواری کہتے ہیں کہ فاٹا کی خواتین کھلاڑیوں میں بے پناہ صلاحیت ہے لیکن سہولیات نہ ہونے کے باعث ان کی قومی سطح پر اپنے خطے کی نمائندگی کی خواہش پوری نہیں ہوسکی کیوں کہ وہ پریکٹس نہیں کرپاتیں۔
ان کے اس دعویٰ کی تصدیق کہ فاٹا کے نوجوانوں نے تمام تر رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے کھیلوں کے میدان میں کامیابیاں حاصل کی ہیں‘ قیصر خان کی صورت میں ہوجاتی ہے۔ 2013ء تک جوڈو کے اس جواں سال کھلاڑی نے پاکستان کی قومی جوڈو ٹیم میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور طلائی تمغہ حاصل کیا تھا۔ 2014ء میں انہوں نے اسلام آباد میں ہونے والی قومی کھیلوں میں حصہ لیا اور کانسی کے دو تمغے حاصل کیے۔
رواں برس باڑہ، خیبر ایجنسی کے خیبر ماڈل سکول کے گریڈ دہم کے طالب علم قیصر نے قیوم سپورٹس کمپلیکس میں ہونے والی پہلی گورنر خیبر پختونخوا امن گیمز میں اپنی ایجنسی کی نمائندگی کی۔فاٹا سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے زیرِاہتمام یکم جون سے چار جون2015ء تک ہونے والے کھیلوں کے ان مقابلوں میں سات قبائلی ایجنسیوں اور چھ فرنٹیئر ریجنز کے 10ہزار کھلاڑیوں نے شرکت کی۔
ان مقابلوں میں تقریباً17مختلف کھیلوں، جن میں ایتھلیٹکس، بیڈمنٹن ، باسکٹ بال، باڈی بلڈنگ، بیس بال، سائیکلنگ، کراٹے، ہاکی، فٹ بال، جوجٹسو، ٹائیکوانڈو، والی بال، ٹیبل ٹینس، سوئمنگ، ویٹ لفٹنگ اور جوڈو شامل ہیں، کے مقابلے ہوئے۔ قیصر خان، جنہوں نے جوڈوٹورنامنٹ میں اپنی ایجنسی کی نمائندگی کی، نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ قبائلی علاقوں کے کھلاڑیوں کے لیے اپنی طرز کا پہلا فیسٹیول تھا۔
انہوں نے کہا:’’ قبائلی علاقوں میں کھیلوں کی سہولیات نہ ہونے کے باوجود فاٹا کے کھلاڑیوں نے خطے اور ملکی سطح پر نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔‘‘ وہ پراعتماد تھے اور ایسا ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ خطے میں ا یک دہائی سے جاری بدترین عسکریت پسندی کو زیر کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ قیصر خان نے کہا:’’ میں اب رواں برس کے اوآخر میں دبئی میں ہونے والے عالمی کھیلوں میں شریک ہونے کے لیے تیاری کررہا ہے۔‘‘
فاٹا کے ڈائریکٹر سپورٹس ایاز خان نے کہا کہ پشاور میں ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ فاٹا کے کھلاڑی دنیا کے کسی بھی خطے کے نوجوانوں کی طرح باصلاحیت ہیں۔
انہوں نے مزید کہا:’’ ہمارے لیے یہ ایک بڑا موقع ہے کہ ہم با صلاحیت کھلاڑیوں کا کھوج لگائیں اور ان کی سرپرستی کریں۔ ہم رواں برس دسمبر میں فاٹا میں ایک بڑا یوتھ فیسٹیول منعقد کریں گے۔‘‘
سٹیڈیم میں قیصر خان جوڈو کی پریکٹس کرنے کے لیے تیار ہورہے ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ ان کو عالمی کھیلوں میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے روزانہ چھ گھنٹوں تک پریکٹس کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ خیبر ایجنسی سے دورپشاور کے سٹیڈیم میں تین گھنٹے صبح اور تین گھنٹے شام کو پریکٹس کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ میری ایجنسی میں نوجوانوں کے لیے کھیلوں کی کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ باصلاحیت کھلاڑیوں کی ایک بڑی تعداد کو مواقع نہ ہونے کے باعث مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘