لاہور (شہریار ورائچ سے) برصغیرکی ثقافتی تاریخ کی ایک صدی معدوم ہونے جارہی ہے کیوں کہ کلاسیکی گائیکی میں اپنے فن کا لوہا منوانے والے 11گھرانے قیامِ پاکستان کے بعد کم ہوکر صرف پانچ رہ گئے ہیں۔
استاد ، مصنف اور کلاسیکی گائیک استاد بدرالزمان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ برصغیر میں جب ایک خاندان کی تین نسلیں کلاسیکی گائیکی میں اپنے فن کا اظہار کرلیں تو یہ خاندان موسیقی کا ایک گھرانہ کہلانے کے قابل ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا:’’ 1947ء میں موسیقی کے بیش تر گھرانوں نے اپنی شاندار تاریخ اور گائیکی کی روایات کے ساتھ پاکستان کا رُخ کیا۔ لیکن کلاسیکی گائیکی کے تلونڈی، آگرہ، کرانہ، ہریانہ، کپورتھلہ اور دہلی گھرانے ملک چھوڑ گئے۔‘‘
استاد بدرالزمان نے مزید کہا:’’استاد مہدی حسن کی وفات کے بعد جے پور گھرانے کی بقاء بھی خطرات کی زد پر ہے۔ دھرپد طرزِ گائیکی کی روایت کو آگے لے کر جانے والے گھرانوں میں تلونڈی قدیم ترین گھرانہ ہے اور استاد مہر علی خاں اس روایت کو پاکستان لے کر آئے۔‘‘
ان کا کہنا تھا:’’ قصور گھرانہ بے مثل استاد میاں تان سین (1506-1589ء )سے بھی پرانا ہے اور استادچھوٹے غلام علی خاں اس خاندان کے آخری وارث تھے۔‘‘
استاد بدرالزمان نے مزید کہا:’’ صرف میرے بھائی استاد قمرالزمان اس گھرانے کے طالب علم ہونے کے ناطے اس روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ پانچ صدیوں پر محیط تہذیبی ورثہ خطرات کی زد پر ہے کیوں کہ اس کے حقیقی وارثوں نے مالی مشکلات اور موسیقی کے ضمن میں سماجی رویے کے باعث اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔‘‘
آل پاکستان میوزک کانفرنس کی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر غزالہ عرفان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کلاسیکی گائیکی کو سُروں کا حسیں امتزاج قرار دیا۔ انہوں نے کہا:’’ کلاسیکی طرزِ گائیکی میں جذبات کا اظہار مختلف راگوں کے ذریعے کیا جاتا ہے جس سے بعدازاں سُر تخلیق پاتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر غزالہ عرفان نے مزید کہا:’’ کلاسیکی گھرانوں سے تعلق رکھنے والے گلوکار آگاہ ہوتے ہیں کہ دو تانوں کے درمیان موجود خلا کو کس طرح پُر کرنا ہے جو دوسرے گلوکاروں کے لیے عمومی طور پر ممکن نہیں ہوتا۔یہ طرزِ گائیکی دراصل آواز کے اُتار چڑھاؤ پر عبور کاایک اظہار بھی ہے۔ ان خاندانوں کے بچے بھی مسحور کردینے والی تال تخلیق کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔‘‘
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے مزید کہا:’’ حیات احمد خان نے1959ء میں کلاسیکی گائیکی کے فروغ اور گلوکاروں کو معاشی مواقع کی فراہمی کے لیے آل پاکستان موسیقی کانفرنس کی بنیاد ڈالی۔‘‘ تاہم مغربی طرزِ موسیقی کا فروغ اس خطے کی کلاسیکی موسیقی کے دھندلا جانے کی ایک اہم وجہ ہے۔
ڈاکٹر غزالہ عرفان کا کہنا تھا:’’ سماجی رویہ گلوکاروں کی اس ضمن میں کوئی حوصلہ افزائی نہیں کرتا کہ وہ کلاسیکی انداز میں کوئی اختراع کریں۔ مزیدبرآں اس طرزِ گائیکی کے سامعین میں کوئی اضافہ نہیں ہوا جب کہ دوسری جانب مغربی موسیقی عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ بقیہ بچ جانے والے کلاسیکی گھرانوں کے نوجوان پاپ موسیقی کی جانب متوجہ ہورہے ہیں کیوں کہ یہ نہ صرف زیادہ پیسہ کمانے بلکہ شہرت حاصل کرنے کا بھی ایک بہترین ذریعہ ہے۔‘‘
گلوکار اور کتاب ’’ برصغیر کے میلوڈی میکرز‘‘ کے مصنف ڈاکٹر امجد پرویز نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خیال گائیکی میں شہرت کا حامل آگرہ خاندان 1975ء میں استاد اسد علی خاں کی وفات کے بعد ختم ہوگیا۔
ان کا مزید کہنا تھا:’’ روشن آرا بیگم نے ملک میں کرانہ گھرانے کی خیال اور ٹھمری طرزِ گائیکی کو متعارف کروایا۔ انہوں نے غزلیں اور بعدازاں نئی طرز کے فلمی گیت بھی گائے۔ ہریانہ گھرانے کی نمائندگی صرف بابا محمد بخش نے کی‘ ان کے بیٹوں نے اس تاریخی روایت کو آگے نہیں بڑھایا۔‘‘
پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے سابق ڈائریکٹر جنرل توقیر ناصر نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم ہونے کے بعد کلاسیکی موسیقی بھی زوال پذیر ہوگئی۔
انہوں نے کہا :’’ فوجی آمرجنرل ضیاء الحق کی ثقافت مخالف سرگرمیوں کے باعث ملک میں آرٹ حقیقی معنوں میں زوال کا شکار ہوا جو تاحال جاری ہے۔ مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر اور جنرل ضیاء الحق کا آرٹ کی تباہی کے حوالے سے کردار یکساں نوعیت کا رہا ہے۔‘‘
اس وقت کلاسیکی گائیکی سے وابستہ صرف چار گھرانے ایسے ہیں جو اپنے تاریخی ثقافتی ورثے کو آگے لے کر جا رہے ہیں جن میں شام چوراسی، پٹیالہ، گوالیار اور قصور شامل ہیں جب کہ دہلی گھرانے کے گلوکاروں نے خیال طرزِ گائیکی ترک کرکے قوالی کی صنف کو اپنے فن کے اظہار کے لیے اختیار کر لیا ہے۔
گوالیار گھرانے سے تعلق رکھنے والے استاد غلام حسن شگن تین فروری 2015ء کو انتقال کرگئے‘ انہوں نے ہاتھوں کے استعمال کے ذریعے تال متعارف کروائی تھی۔ اس وقت استاد فتح علی خاں حیدرآبادی گوالیار طرز کی گائیکی کے واحد گلوکار ہیں۔
استاد فتح علی خاں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ یہ بہت مشکل ہورہا ہے کہ ہم اپنے اور اپنے خاندانوں کے لیے مناسب گزر بسر ممکن بنا سکیں۔ جب ہم پرفارم کر رہے ہوتے ہیں تو نوجوان مذاق اڑاتے ہیں۔ اگلی نسل کے پاس ترغیب حاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے کیوں کہ لوگوں کا موسیقی سننے کے ضمن میں مزاج تبدیل ہوا ہے جس کے باعث ہمارے لیے جگہ مزید سکڑ گئی ہے۔‘‘
پٹیالہ گھرانے کے فن کاروں نے سامعین کی پسند کے پیشِ نظر نیم کلاسیکی اور ہلکی پھلکی موسیقی میں اپنی پہچان بنائی ہے لیکن گھرانے کے بزرگ ارکان نے اس رجحان کو قبول نہیں کیا۔
استاد حامد علی خاں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میرے بیٹوں اور بھتیجوں نے پاپ موسیقی کے بینڈ تشکیل دیے ہیں لیکن انہوں نے کلاسیکی طرزِ گائیکی سیکھی ہے جو وہ پرفارم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔‘‘
پٹیالہ گھرانے کے ابھرتے ہوئے گلوکار ولی حامد نے کہا کہ اگر آپ عوامی اجتماع میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو کلاسیکی گائیکی میں آپ کے لیے کچھ نہیں رہا۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں نے گائیکی کا روایتی فن اپنے والد اور چچا سے سیکھا لیکن پاپ موسیقی کا بینڈ تشکیل دینے کو ترجیح دی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میری آمدن اپنے والد سے کئی گنا زیادہ ہے۔‘‘
لاہور آرٹس کونسل کے چیئرمین عطاء الحق قاسمی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ملک میں کلاسیکی موسیقی کے فروغ کے لیے متعدد آرٹس کونسلیں کام کر رہی ہیں لیکن سول سوسائٹی اور موسیقی کے شائقین کی مدد کے بغیر ایسا ہونا ممکن نہیں۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ صرف حکومت موسیقی کی اس صنف کو زندہ رکھنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتی۔ گھرانوں سے تعلق رکھنے والے گلوکاروں کو بھی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ایسی موسیقی تخلیق کریں جو عوام میں قبولِ عام حاصل کرے۔ آرٹس کونسلیں کلاسیکی موسیقی کے فروغ کے لیے بہت سے فیسٹیول منعقد کرتی ہیں جب کہ دوسری جانب موسیقی کے اساتذہ کو متبادل معاشی مواقع فراہم کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے جاچکے ہیں۔‘‘