فیصل آباد (محمد سلیم سے) فیصل آباد ڈویژن میں حجاموں، نیم حکیموں اور سرکاری و نجی ہسپتالوں میں جراثیم سے پاک آلات نہ ہونے کے باعث ہیپاٹائٹس سی تیزی سے پھیل رہا ہے۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال، فیصل آباد میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد عرفان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈویژن کی تقریباً24 فی صد آبادی کو ہیپاٹائٹس سی کا مرض لاحق ہے‘ یہ شرح پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ ملک بھر میں آٹھ فی صد لوگ ہیپاٹائٹس سی سے متاثر ہیں تاہم فیصل آباد ڈویژن میں یہ شرح اس لیے زیادہ ہے کیوں کہ مختلف علاقوں میں نیم حکیموں نے اجارہ داریاں قائم کر رکھی ہیں۔ یہ نیم حکیم ایک مریض کے طبی معائنے کے 25سے 50روپے تک وصول کرتے ہیں اور مختلف بیماریوں کے انجیکشن لگانے کا 20روپے اضافی لیتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر محمد عرفان نے کہا کہ دیہی علاقوں میں لوگ اس بیماری سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں کیوں کہ ان علاقوں میں نیم حکیم کوالیفائیڈ ڈاکٹر کا نام استعمال کرکے صحت کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ ڈاکٹر مریضوں کے طبی معائنہ کے لیے اپنے ان کلینکوں کا رُخ نہیں کرتے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ یہ نیم حکیم مریضوں کو انجیکشن لگانے کے لیے ایک ہی سرنج استعمال کرتے ہیں‘ لوگ ان نیم حکیموں کے پاس اس لیے آتے ہیں کیوں کہ ان کی فیس کوالیفائیڈ ڈاکٹروں کی نسبت کم ہوتی ہے۔ ہیپاٹائٹس سی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ایک ہی سرنج کا استعمال بھی ہے۔‘‘
ڈاکٹر محمد عرفان کا کہنا تھا:’’ہم نے چند برس قبل جڑانوالہ کے نواحی گاؤں چک 58-GB میں ایک تحقیق کی جس کی 70فی صد آبادی ہیپاٹائٹس سی کا شکار تھی۔ اس علاقے میں تحقیق کے دوران یہ بھی منکشف ہوا کہ ایک درجن سے زائد نیم حکیم اس بیماری کے علاقہ بھر میں پھیلنے کی وجہ تھے۔‘‘
الائیڈ ہسپتال کی انتظامیہ نے 2014ء میں 57,452مریضوں کی طبی جانچ کی جن میں سے 16013میں ہیپاٹائٹس سی مثبت تھا۔ ان مریضوں نے لیپروسکوپی، گردے میں پتھری، گائنی، سی سیکشن، پتے اور ناک، کان، گلے وغیرہ کی سرجری کے لیے ہسپتال کا رُخ کیا تھا۔علاوہ ازیں فالج، گردوں ، امراضِ قلب اور پھیپھڑوں کے مریضوں کی بڑی تعداد کے خون کی جانچ بھی کی گئی۔
ہسپتال کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2014ء میں 5401مریضوں کا طبی معائنہ کیا گیا جن میں سے 1567ہیپاٹائٹس سی کا شکار تھے۔فروری میں 5129 میں سے 1397، مارچ میں 5462میں سے 1464، اپریل میں 5325میں سے 1592، مئی میں 5223میں سے 1726، جون میں 5268میں سے 1647ء جولائی میں 4390میں سے 1357، اگست میں 6413میں سے 1578، ستمبر میں 6560میں سے 1357، اکتوبر میں 4127میں سے 987اور نومبر میں4154میں سے 1341مریضوں میں ہیپاٹائٹس سی کے وائرس کی موجودگی کا پتہ چلا۔
ڈاکٹر محمد عرفان کہتے ہیں کہ الائیڈ ہسپتال میں مریضوں کی سکریننگ سے حاصل ہونے والے نتائج تشویش ناک تھے اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) ان ڈاکٹروں کے خلاف مہم چلانے کے بارے میں غور کر رہی ہے جنہوں نے ان نیم حکیموں کو اپنا نام استعمال کرکے ہسپتال چلانے کی اجازت دے رکھی ہے جس کے باعث ہیپاٹائٹس سی کے مرض میں اضافہ ہورہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ کوالیفائیڈ ڈاکٹر لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ پی ایم اے اس رجحان پر نہ صرف قابو پائے گی بلکہ نیم حکیموں کے حوالے سے تفتیش بھی کی جائے گی۔ ضلعی حکومت کی جانب سے نیم حکیموں کے خلاف اکثر و بیش تر صرف کاغذی مہم شروع کی جاتی ہے لیکن ان کے مستقل بنیادوں پر تدارک کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے جو لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔‘‘
ہیپاٹائٹس سی سے متاثر ہونے والی عوام کی بڑھتی ہوئی شرح اور حکومت کی جانب سے دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات فراہم نہ کیے جانے کے باعث نیم حکیموں کی معقول آمدن ہوجاتی ہے جو علاج کے لیے انتہائی نامناسب طریقے استعمال کرتے ہیں۔
شور کوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک باشعور کسان عاشق علی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ چند ماہ قبل ایک نیم حکیم نے گاؤں کا دورہ کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ ہیپاٹائٹس کے علاج کا ماہر ہے۔ مریضوں کی ایک بڑی تعداد نے اس سے طبی معائنہ کروایا اور اس کی فیس ادا کی، تاہم یہ تمام مریض ہنوز اسی مرض کا شکار ہیں۔‘‘
عاشق علی نے اس نیم حکیم کے طریقۂ علاج پر بات کرتے ہوئے کہا:’’ اس نے ہر مریض کی زبان پر گھاؤ لگایا اور یہ دعویٰ کیا کہ خون بہنے سے بیماری کے جراثیم جسم سے نکل جائیں گے۔ تاہم چار سے پانچ ماہ گزر جانے کے باوجود ان مریضوں کی صحت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔اب مریض اور ان کے خاندان اس نیم حکیم کی تلاش میں سرگرداں ہیں تاکہ اس سے بدلہ لے سکیں۔ اس نیم حکیم کو فی الحال نواحی دیہاتوں میں بھی کسی نے نہیں دیکھا۔‘‘
عاشق علی نے نیوز لینز پاکستان کو مطلع کیا کہ حالیہ مہینوں کے دوران ضلع جھنگ کے مختلف علاقوں میں نیم حکیموں کے کلینکوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جن کا کوئی طبی تجربہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح کچھ میڈیکل سٹورز کے مالکان کی نشاندہی بھی کی جاچکی ہے جو ان مریضوں کو ادویات تجویز کرتے ہیں۔
پنجاب میڈیکل کالج سے منسلک ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر مقصود احمد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہاکہ نیم حکیم عوام کی جانوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں کیوں کہ حکومت اس مافیا کے خلاف کارروائی کرنے کے ضمن میں بے بس ہے۔ مزیدبرآں ہیپاٹائٹس کی شرح بہت زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود سرکاری سطح پر ایسی کوئی مہم شروع نہیں کی گئی کہ مریض اس کے اخراجات برداشت کرنے کے قابل ہوجائیں۔
ڈاکٹر مقصود احمد کا کہنا تھا:’’ لوگوں میں یہ غلط تاثر رائج ہوچکا ہے کہ پینے کا پانی ہیپاٹائٹس سی کے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ ہے جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ حجام اور نیم حکیم اس کی بڑی وجہ ہیں کیوں کہ آلودہ پانی پینے سے ہیپاٹائٹس سی کے بجائے ہیپاٹائٹس اے لاحق ہوتا ہے۔ مریضوں کی سرجری اور طبی معائنہ کے لیے استعمال ہونے والے آلات کا صاف نہ ہونا بھی ہیپاٹائٹس سی میں اضافے کی وجہ بن رہا ہے۔‘‘