گلیات کے پرفضا مقام پر تعمیرات‘ فطری حسن ماند پڑنے کے خدشات

0
4586

پشاور (اظہار اللہ سے) شمالی پاکستان کی سیاحت اس وقت تک مکمل تصور نہیں ہوتی جب تک خیبر پختونخوا کے پرفضا مقام گلیات کا رُخ نہیں کیا جاتا۔ لیکن یہ مقام اس وقت سیاحت کے لیے زیادہ موزوں خیال ہوگا جب اگلی بارآپ اپنی کار گھر چھوڑ کر آئیں گے۔
صوبہ میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارکن پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کی جانب سے گلیات میں پارکنگ پلازوں کی تعمیرکے منصوبے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں کیوں کہ گلیات کے پرفضا پہاڑی مقام پر جنگلات اور سرسبز وشاداب مقامات پر بلا روک ٹوک ترقیاتی منصوبے شروع کیے جانے کے باعث ان علاقوں کا فطری حسن ماند پڑ رہا ہے۔
گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) نے قومی و عالمی فرموں اور کمپنیوں سے تین پارکنگ پلازوں کی تعمیر کے لیے پیشکش طلب کی ہے۔دو پارکنگ پلازے نتھیا گلی اور ایک ایوبیہ میں تعمیر کیا جائے گا تاکہ’’ ان علاقوں کا رُخ کرنے والے سیاحوں کو پارکنگ کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘‘
ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سرحد کنزرویشن نیٹ ورک کے کنوینئر عادل ظریف نے کہا:’’مذکورہ منصوبے سے فطری حسن اور حیاتیاتی تنوع پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جیسا کہ حکومت کو ان تین پلازوں کی تعمیر کے لیے ہزاروں درختوں کی کٹائی کرنا ہوگی۔‘‘
لفظ’’گلیات‘‘ کا ماخذ اُردو زبان کا لفظ’’گلی‘‘ ہے ‘ یوں اس کے لغوی معنی پہاڑوں کے درمیان راستے کے ہیں‘ یہ صوبہ خیبر پختونخوا کا ایک پرفضا پہاڑی مقام ہے جو اپنے فطری حسن اور پہاڑوں پر چڑھنے کے لیے متعدد راستوں کے باعث معروف ہے جس کے باعث ملک بھر سے سیاحوں کی ایک بڑی تعداد اس مقام کا رُخ کرتی ہے۔ گلیات کی پہاڑیاں پہلی بار برطانوی حکام نے اس وقت دریافت کیں جب انہوں نے موسمِ گرما کے دوران زمینی علاقوں میں پڑنے والی شدید ترین گرمی کے باعث ان پہاڑوں میں پناہ لی۔ اسلام آباد کے شمال مشرق میں یہ پہاڑی علاقہ تقریباً50سے 80کلومیٹرتک پھیلا ہوا ہے۔
عادل ظریف نے کہا کہ ادارۂ برائے تحفظِ ماحولیات(ای پی اے) نے ماحولیات کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کیے ہیں اور نہ ہی اس ادارے سے ماحولیات پر کام کرنے والے ماہرین منسلک ہیں۔ انہوں نے شکایت کی کہ ایک جانب خیبرپختونخوا حکومت نے صوبہ بھر میں ایک ارب درخت لگانے کی مہم شروع کی ہے جب کہ دوسری جانب وہ پارکنگ پلازے تعمیر کرنے کے لیے ان کی کٹائی بھی کر رہی ہے‘ یہ واضح رہے کہ اس منصوبے سے ملک کی صرف 10سے 20فی صد تک صاحبِ ثروت آبادی مستفید ہوگی جو کاروں پر سفر کرنے کی استطاعت رکھتی ہے۔
عادل ظریف نے کہا:’’ میَں ترقیاتی منصوبوں کے خلاف نہیں ہوں لیکن کیا آبادی کی ایک محدود شرح کے فائدے کے لیے درختوں کی کٹائی مفید ثابت ہوسکتی ہے؟‘‘
انہوں نے فون پر نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے شمال میں ان پہاڑی علاقوں میں ٹریفک کے بہاؤ پر قابو پانے کے لیے نہ صرف پبلک ٹرانسپورٹ بلکہ سائیکلنگ کی حوصلہ افزائی بھی کی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پہاڑیاں ان سیاحوں کے لیے انتہائی پُرکشش ہیں جو پرہجوم شہروں سے دور چند روز پرسکون ماحول میں گزارنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔
گزشتہ برس نومبر میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارکنوں اور فطری مناظر سے لطف اندوز ہونے کے دلدادہ سیاحوں کو اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے علاقے میں سات ماڈل ٹاؤن تعمیر کرنے کا اعلان کیا۔ گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر نذر شاہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے ادارے نے اس ضمن میں متعدد عالمی تعمیراتی کمپنیوں سے رابطے کیے ہیں جنہوں نے ’’ چھانگلہ گلی سے نتھیا گلی تک سات ماڈل ٹاؤن تعمیر کرنے کا ماسٹر پلان تشکیل دیا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کا مقصد علاقے کے فطری حسن کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ سیاحوں کو ان علاقوں کی جانب متوجہ کرنا بھی ہے۔
تاہم عادل ظریف نے اس مؤقف سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ عمارتوں کی تعمیرکو ترقی سے منسوب کرنا درست نہیں کیوں کہ اس سے ان علاقوں کا فطری حسن متاثر ہوگا ۔
انہوں نے تجویز دی :’’ اگر حکومت سیاحوں کی کاروں کی پارکنگ کا مسئلہ حل کرنے کے ضمن میں پریشانی کا شکار ہے تو اس صورت میں ان سیاحتی مقامات تک رسائی کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک موزوں نظام قائم کیا جائے۔ اس خطے کے ماحول اور حیاتیاتی تنوع کو کسی بھی قیمت پر داؤ پرنہ لگانا ہی بہتر ہوگا۔‘‘
خیبرپختونخوا کے وزیر برائے مقامی حکومت و دیہی ترقی عنایت اللہ نے کہا کہ یہ منصوبہ سیاحوں کے لیے پارکنگ کی نامناسب سہولیات کے باعث شروع کیا گیا ہے۔ 
انہوں نے کہا:’’ سیاحوں کو کار پارک کرنے کے ضمن میں سنجیدہ نوعیت کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے باعث حکومت نے پارکنگ پلازے تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔‘‘
ان سے جب مذکورہ منصوبے کے ماحولیات پر مہلک اثرات کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ حکومت کو ادارۂ برائے تحفظِ ماحولیات اور ان تمام اداروں کی جانب سے، جن کا ماحولیات سے بالواسطہ یا بالاواسطہ کوئی تعلق ہے، سے نو آبجیکشن سرٹفیکیٹ حاصل کرنا ہے جو درحقیقت اجازت نامہ ہی تصور ہوگا۔
عنایت اللہ نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم ان سیاحتی مقامات کے فطری حسن کو ماند نہیں پڑنے دیں گے اور اسی صورت میں کوئی منصوبہ شروع کریں گے جب ادارۂ برائے تحفظِ ماحولیات کی جانب سے اس کی اجازت مل جائے گی۔‘‘
نومبر 2013ء میں سابق چیف جسٹس دوست محمد خان نے پشاور ہائی کورٹ کی اجازت کے بغیر ہاؤسنگ سکیموں کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ پر پابندی عاید کر دی تھی۔ عدالت نے یہ فیصلہ اس وقت کیا تھا جب گلیات میں ہاؤسنگ سکیموں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں رپورٹیں منظرِعام پر آئیں۔ عدالت نے صوبہ کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو حکم دیا کہ وہ ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دیں جو علاقے کے حوالے سے ماسٹر پلان تشکیل دے۔
اکتوبر 2014ء میں پشاور ہائی کورٹ نے ایک کمیشن تشکیل دیا جس میں ہزارہ کے کمشنر ارباب محمد عارف، ورلڈ وائلڈلائف فنڈ کے نمائندے محمد ابراہیم، ادارہ برائے تحفظِ ماحولیات خیبرپختونخوا کے ڈائریکٹر محمد بشیر، گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر نذر شاہ اور دیگر حکام شامل ہیں جنہوں نے ’’گلیات کے ماسٹر پلان‘‘ پر رپورٹ جمع کروانا ہے جس میں اس کے مقاصداوراگر کوئی خلاف ورزی ہورہی ہے تو اس کے بارے میں آگاہ کرناشامل ہے۔ 
عدالت نے یہ رپورٹ بھی طلب کی کہ کیا گلیات کے ماحول کو پہنچنے والے نقصان کو مدِنظر رکھتے ہوئے ماسٹر پلان اور تعمیراتی قوانین تشکیل دیے گئے ہیں اور کیا یہ ماحولیاتی قوانین سے متصادم تو نہیں ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here