لاہور (شہریار ورائچ سے) کلاسیکی موسیقی کے سازوں کی ایک بڑی تعداد جیسا کہ وچھیترا وینا، چھنگ اور منجیرا پاکستان کے موسیقی کے منظرنامے سے غائب ہوتے جارہے ہیں جس کے ساتھ ہی ان کی تاریخ، روایات، ثقافت، موسیقار اور استاد بھی اب باقی نہیں رہے۔
پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ یافتہ مصنف، استاد اور کلاسیکی گلوکار استاد بدرالزمان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ان(سازوں) میں سے کچھ برصغیر کی پانچ صدیوں پر مشتمل تاریخی روایت کا ایک لازمی جزو ہیں۔ ان سازوں کو بجانے کا فن استادوں کے ذریعے ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتارہا۔‘‘
استاد بدرالزمان نے مزید کہا:’’منجیرا پیتل کی دو پلیٹوں پر مشتمل ہوتاجو عام طو رپر موسیقی کے بینڈز میں بجایا جاتا اور استاد خدا بخش ملک کے آخری منجیرا نواز تھے۔ مزیدبرآں اکتارہ کا ساز استادسائیں مرنا نے ایجاد کیا تھا لیکن اب یہ ملک بھر میں صرف دو یا تین لوگ ہی بجا رہے ہیں۔ باعثِ افسوس اَمریہ ہے کہ منہ سے بجانے والا ساز چھنگ اور تاروں والا ساز وچھیترا وینا بھی 2000ء کے بعد سے معدوم ہوچکاہے۔‘‘
موسیقار وں کا کہنا ہے کہ کلاسیکی موسیقی کے سازوں پر مدھر دھنوں کو چھیڑنے میں ان کے لیے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ حتیٰ کہ فلم اور موسیقی کی صنعت بھی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی آمدنی کے دو بڑے ذرائع تھے لیکن اب ثقافتی سرگرمیوں کے لیے کچھ باقی نہیں رہا۔
استاد عبدالرؤف نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ فلمی صنعت کا زوال ان سازوں کی مقبولیت میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ایک وقت تھا جب یہ آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ تھے اور نئے آنے والوں کو ان سازوں میں کشش محسوس ہوا کرتی۔ موسیقی کے ساز جیسا کہ چھوٹی ڈفلی، ڈھولک اور گھڑا بھی ناپید ہونے کے خطرات سے دوچار ہیں‘ حتیٰ کہ پکھاوج، سنتور، سارندہ، سارود ، شہنائی، کرتال، جوڑی (بانسریوں کا جوڑا)، پنگی اور جل ترنگ کے ماہر فنکار بھی ملک میں صرف ایک یا دو ہی رہ گئے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ مذکورہ ساز بجانے والے فنکاراس وقت احساسِ ندامت کا شکار ہوجاتے ہیں جب وہ آرکسٹرا، استاد، موسیقار اور ایک کلاسیکی گلوکار کی معاونت کے بغیر موسیقی کمپوز کرنے کے لیے کی بورڈ کا استعمال کرتے ہیں۔
جل ترنگ کے واحد معروف فنکار لیاقت حسین نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’جل ترنگ ایک ایسا ساز ہے جس میں موسیقی پانی سے بھرے سات سے 14پیالوں سے تخلیق کی جاتی ہے۔ پیالوں میں پانی کی مقرر کی گئی سطح کی حرکت سے موسیقی پیدا ہوتی ہے۔استاد سلامت علی خاں کی 2013ء میں وفات کے بعد اس وقت لیاقت حسین واحد سنتور نواز ہیں۔
سنتور کا ساز کشمیر سے ملک کے دیگر علاقوں تک پہنچا اور اس کافارس اور میسوپوٹیمیا کی روایت سے گہرا تعلق ہے۔ لیاقت حسین کہتے ہیں:’’ میَں یہ ساز گزشتہ تین دہائیوں سے بجا رہا ہوں لیکن میرے بچوں کی اس سے کوئی وابستگی نہیں ہے کیوں کہ میَں ان کی زندگی میں کوئی آرام و آسائش پیدا نہیں کرسکا۔‘‘
دو سارود نوازوں میں سے ایک تنویر طافو نے کہا کہ سارود کا مطلب مسحور کرنے دینے والی آواز ہے۔ یہ تاروں والا ایک ساز ہے جو افغان اور فارس کی روایت سے تعلق رکھتا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا:’’ اس سازکو سیکھنا مشکل ہے اور نوجوانوں کی اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کوئی معاشی فائدہ بھی نہیں ہے۔ میرا صرف ایک بچہ ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس ساز کا مستقبل روشن نہیں ہے۔‘‘
پکھاوج نواز استاد اللہ لوک اپنے معاشی حالات سے دلبرداشتہ ہیں۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ان کو اپنے فن کے اظہار کا شاذ و نادر ہی موقع ملتا ہے اور ایک پرفارمنس کا صرف دو ہزار روپے معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’پکھاوج کے ساتھ کلاسیکی رقص یا دھرپدطرزِ گائیکی کو ہم آہنگ کیا جاتا ہے۔ طبلہ بھی پکھاوج کی ایک قسم ہے لیکن ان دونوں کا سٹروک ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ کلاسیکی گلوکار وں نے اس ساز کو استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے اور دوسرا کلاسیکی گلوکاری کی تقریبات بھی اب بہت زیادہ نہیں ہورہیں۔‘‘
لوک ساز کرتال سندھ کے دور افتادہ علاقوں اور جوڑی کی دھنوں کو دیہی پنجاب او رسندھ کے روایتی میلوں ٹھیلوں میں سنا جاسکتا ہے۔استاد بدرالزمان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سپیرے پنگی بجاتے ہیں کیوں کہ اب اس میں دوسروں کے لیے کوئی کشش نہیں رہی۔
دوسری جانب سارندہ تاروں والا ایک ساز ہے اور یہ نیپال اور برصغیر کی روایت سے تعلق رکھتا ہے۔ سارندہ کی تاریں تین سے تیرہ تک ہوتی ہیں۔ پشاور کا صرف ایک سرحدی خاندان تاحال یہ ساز بجھاتا ہے۔ اعجاز سرحدی نے نیوزلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میَں ملک میں کسی دوسرے سارندہ نواز کو نہیں جانتا۔‘‘
لاہور آرٹس کونسل میں موسیقی کے 10 سازوں کے رموز سکھائے جارہے ہیں لیکن مذکورہ بالا کوئی ایک بھی کلاسیکی ساز ان میں شامل نہیں۔
لاہور آرٹس کونسل کے چیئرمین عطاء الحق قاسمی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان کلاسیکی سازوں کے بجائے گٹار، ہارمونیم اور کی بورڈ میں مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا:’’ نوجوانوں کو کلاسیکی سازوں میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی کیوں کہ دنیا بھر میں اب رجحان تبدیل ہورہا ہے۔ مزیدبرآں ان سازوں کی دھن مدھم ہے جو ان کے نوجوانوں میں مقبول نہ ہونے کی ایک اہم وجہ بھی ہے۔‘‘
وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر رانا ارشد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت نے ان موسیقاروں کے لیے دو کروڑ روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا ہے جو کلاسیکی سازوں کو زندہ رکھنے کی جستجو کررہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا:’’ حکومت موسیقاروں اور تکنیک کاروں کے مسائل کا ادراک رکھتی ہے۔ فلمی صنعت کے فروغ کے لیے بھی ایک منصوبہ تیاری کے مراحل میں ہے تاکہ اس کا شاندار ماضی واپس لوٹ آئے جس سے ظاہرہے کہ ان موسیقاروں اور تکنیک کاروں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے ایک پلیٹ فارم مل جائے گا۔‘‘