لاہور ( احسان قادر سے) گھریلو صنعتوں سے منسلک محنت کشوں کے حالات بہتر بنانے کے لیے صوبائی سطح پر قانون سازی میں تاخیر کے باعث ان کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے اور انہوں نے اب اپنے مطالبات کی منظوری تک ہڑتال کرنے کی دھمکی دی ہے۔
گھر میں سوئیٹر بننے والی نازیہ جمیل نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے زندگی انتہائی کٹھن ہوگئی ہے کیوں کہ ان کو مناسب تنخواہ ادا نہیں کی جاتی۔ انہوں نے کہا:’’ میں اور میری بہن ایک سوئیٹر تین سے چار سو روپے میں بنتی ہیں جو مارکیٹ میں تین سے چار ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ تمام ترمنافع مڈل مین یا پھر دکان دار کو حاصل ہوتا ہے۔‘‘ نازیہ نے مزید کہا کہ وہ طبی سہولیات اور نہ ہی بڑھاپے میں حاصل ہونے والے فوائد حاصل کرسکتی ہیں کیوں کہ قانون کی رو سے وہ ایک ہنرمند تصور نہیں ہوتیں۔ انہوں نے کہا:’’ ہم اس وقت تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے جب تک ہمارے تمام مطالبات تسلیم نہیں کر لیے جاتے۔‘‘
قالین بافی کی صنعت سے منسلک ضلع گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی ایک اور محنت کش جمیلہ بی بی سڑکوں پر آکر احتجاج کر رہی ہیں تا کہ ان کو ایک ہنرمند قرار دیا جائے جس کے باعث وہ مناسب معاشی فوائد حاصل کرنے کے قابل ہوجائیں گی۔ انہوں نے نیوز لینز سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا:’’ میَں انتہائی قلیل تنخواہ پر قالین بنتی ہوں جس کے باعث میری گزربسر بہت مشکل سے ہوتی ہے۔‘‘
قالین بافی، کھڈی پر کپڑے بننا اور اخبارات کی فروخت ایسے غیر رسمی شعبے ہیں جن میں بنیادی طور پر گھروں میں رہتے ہوئے کام کیا جاتا ہے۔ گھریلو صنعتوں سے منسلک محنت کشوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے اتحاد ہوم نیٹ پاکستان کے مطابق اس وقت ملک میں 50لاکھ لوگ گھروں میں رہ کر مختلف پیشوں سے منسلک ہیں جن میں سے 80فی صد خواتین ہیں‘ وہ شہری علاقوں یا اس کی نواحی بستیوں میں رہتی ہیں۔
ان محنت کشوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم پراگریسوہوم بیسڈ ورکرز فیڈریشن کی فنانس سیکرٹری نازلی جاوید کہتی ہیں کہ حکومت کو کسی قسم کی تاخیر کیے بغیرگھریلو صنعتوں سے منسلک محنت کشوں کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا:’’ یہ محنت کش ایسے حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں جو موجودہ عہد سے مطابقت نہیں رکھتے جب کہ ان کا معاوضہ اس قدر قلیل ہوتا ہے جس سے بہ مشکل ان کے گھر کا راشن پورا ہوپاتا ہے کیوں کہ کوئی قانون ان کو ہنرمند تسلیم نہیں کرتا۔‘‘ نازلی جاوید نے کہا کہ ان کا ادارہ ایسے محنت کشوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتا رہے گا تاوقتیکہ حکومت کی جانب سے قانو ن سازی کیے جانے کے بعد ان کو ان کا حقیقی مقام نہیں مل جاتا۔ پارلیمنٹرین ان کو نظرانداز کرتے ہیں تاکہ حکومت کی جانب سے سوشل سکیورٹی فوائد کی ادائیگی نہ کرنی پڑے۔
ان محنت کشوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک ایسی ہی غیرسرکاری تنظیم لیبر ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر شہناز اقبال نے نیوز لینز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ وقت آگیا ہے کہ گھریلو صنعتوں سے منسلک محنت کش مرد و خواتین اس ناانصافی کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔ انہوں نے کہا:’’اس حقیقت سے قطئ نظر کہ ملک کے معاشی شعبہ میں ان محنت کشوں کا حصہ 70فی صد ہے‘ اس کے باوجود ان کو کوئی سماجی مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہے۔ یہ ناانصافی کی انتہا ہے کہ ان محنت کشوں کی نہ ہی کوئی سماجی اور قانونی شناخت ہے اور نہ ہی ان کی معاشی حیثیت بہتر بنانے کے لیے کوئی اقدامات کیے گئے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے محنت کش خواتین بہت سی سماجی و معاشی مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔ شہناز اقبال نے کہا کہ پاکستان نے آئی ایل او کنونشن پر دستخط کررکھے ہیں جو حکومت کو پابند کرتاہے کہ وہ نہ صرف وفاقی پالیسی تشکیل دے بلکہ اس ضمن میں صوبائی سطح پر بھی قانون سازی کی جائے۔ انہوں نے اس اَمر پر مایوسی کا اظہار کیا کہ موجودہ حکومت سمیت ہر حکومت نے عالمی سطح پر کیے گئے وعدے کی پاسداری نہیں کی۔ ان کے مطابق یہ انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے ایسے محنت کشوں کو ہنرمند قرار دینے کا مطالبہ کیا۔
حکومتِ پنجاب کے لیبر ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر سید حسنات نے تسلیم کیا کہ صوبے میں مختلف گھریلو صنعتوں سے منسلک محنت کشوں کو ان کے حقوق دلوانے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں لیکن انہوں نے کہا کہ حکومت اس ضمن میں خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کر رہی۔ پنجاب ہوم بیسڈ ورکرز بل تیار ہوچکا ہے اور پہلے مرحلے میں گھریلو صنعتوں سے منسلک 10ہزار محنت کشوں کو رجسٹرڈ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے نیوز لینز سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم آئی ایل او کنونشن کی ہدایات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے قانون سازی کریں گے اور حکومت اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لائے گی۔انہوں نے کہا کہ گھریلو صنعتوں سے منسلک محنت کشوں کی رجسٹریشن اور ان کے کوائف اکٹھا کرنے کے علاوہ دکان داروں اور ان کے درمیان رابطہ کاری کے فرائض انجام دینے والوں کے کردار سے متعلق معلومات اکٹھا کرنا آسان نہیں ہے لیکن حکومت اس چیلنج سے نپٹنے کے لیے کام کر رہی ہے۔‘‘
ایک ایسی ہی محنت کش آمنہ قریشی نے کہا کہ وہ اپنے بچوں کے لیے بہت زیادہ نہیں کما پاتیں جس کے باعث زندگی بہت مشکل ہے۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں روزانہ 16گھنٹے کام کرتی ہوں لیکن اس کے باوجود اپنے بچوں کو مناسب خوراک کی فراہمی کے لیے کچھ نہیں کرپاتی ، حتیٰ کہ وہ سکول بھی جاتے ہیں ۔ ‘‘