لنڈی کوتل، خیبرایجنسی ( اشرف الدین سے) لنڈی کوتل فٹ بال گراؤنڈ کے دورہ کے دوران محمد سلیم نے صرف گرد اور بیرونی دیوار کو منہدم دیکھا۔ انہوں نے ویران میدان میں کچھ بھیڑیں دیکھیں جو سبزے کی تلاش میں تھیں جو وہاں موجود نہیں تھا۔
سلیم اکثر و بیش تر فٹ بال سٹیڈیم کا رُخ کرتے ہیں اور پرامید ہوتے ہیں کہ دیہاتوں کی ٹیموں کو ٹورنامنٹ کھیلتے ہوئے دیکھنے میں کامیاب ہوجائیں گے تاکہ ان کی خوشی کا وہ احساس تازہ ہوجائے جب وہ خود ٹیم کا حصہ تھے اور اپنی ٹیم کو فتح سے ہمکنار کروانے کے لیے گول کرنے کی جستجو کررہے ہوتے تھے۔
وہ اس بے رنگ اور ویران میدان کے دوروں کے دوران تماشائیوں کی گونج اور فاتح ٹیم کی والہانہ چیخ و پکار سننے کا انتظار کررہے ہوتے ہیں۔
سلیم ماضی کے اوراق پلٹتے ہوئے کہتے ہیں:’’یہ ایک دہائی قبل کا قصہ ہے جب میَں فاٹا کی دو بہترین فٹ بال ٹیموں شمس فٹ بال کلب اور خیبر یونین فٹ بال کلب کے مابین لنڈی کوتل فٹ بال گراؤنڈ میں ہونے والے میچ سے لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔ وہ میرے لیے ایک عظیم لمحہ ہوتا جب میں اس میدان میں ہزاروں دوسرے تماشائیوں کے ساتھ موجود ہوتا۔‘ ‘
30برس کے سلیم نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ2002ء کے بعد سے لنڈی کوتل میں کوئی فٹ بال ٹورنامنٹ نہیں ہوا‘ ان کا یہ قصبہ شورش زدہ خیبر ایجنسی میں افغان سرحد سے متصل ہے۔ انہوں نے مایوسی سے کہا:’’ اب صرف بم دھماکوں اور عسکریت پسندی سے متعلقہ واقعات کی بازگشت ہی فاٹا کے قبائلی علاقوں میں سنائی دیتی ہے۔‘‘
قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندی کے فروغ پذیر ہونے کے باعث فٹ بال، کرکٹ اور دوسرے کھیلوں کے بہت سے کھلاڑی یہ خطہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ سلیم کو 2002ء کے بعد سے مایوسی کا سامنا ہی کرنا پڑ رہا ہے کیوں کہ موسمِ گرما کھیلوں کے میلے کے بغیر ہی گزر جاتا ہے جو14اگست کو آزادی کے روز ہوا کرتا تھا۔
سلیم باڑہ فٹ بال ٹیم کی جانب سے چند برس تک کھیلتے رہے تاوقتیکہ عسکریت پسندی کے باعث بیرونی سرگرمیاں متاثر نہیں ہوئیں۔ عسکریت پسندوں نے وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں میں والی بال اور فٹ بال کے میچوں کو نشانہ بنایا۔
سلیم نے کہا:’’ فاٹا کے نوجوانوں میں بے پناہ ٹیلنٹ پنہاں ہے لیکن اس بارے میں کبھی ادراک نہیں ہوپایا۔ اس کے ساتھ ہی نوجوانوں کوکھیلوں کی سہولیات اور تربیت فراہم کرنے کے علاوہ مزید میدان تعمیر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کاکھُل کر اظہار کر سکیں۔ ‘‘
سلیم وہ واحد کھلاڑی نہیں ہیں جو فاٹا کے نوجوانوں میں عسکریت پسندی اور شورش کے اس ماحول میں اعتماد اور امید کی امنگ پیدا کرنے اور فاٹا میں کھیلوں کے احیاء کی خواہش رکھتے ہیں۔
بہت سے معروف کھلاڑی جیسا کہ کراٹے کے سابق چیمپئن اور فاٹا و خیبرپختونخوا میں کراٹے کے عالمی کھلاڑیوں کے کوچ فرہاد شنواری، سابق ٹیسٹ کرکٹر ریاض خان شنواری اور فٹ بال کے سابق کھلاڑی اور فاٹا اولمپکس کمیٹی کے جنرل سیکرٹری شاہد خان شنواری قبائلی علاقوں میں کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں کے احیاء کے ذریعے امن و امان کے قیام کے خواہاں ہیں۔
فرہاد شنواری حال ہی میں بنکاک، تھائی لینڈ اور ملائشیاء میں ہونے والی ورلڈ کراٹے چیمپئن شپ میں کوچ اور ریفری کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد وطن واپس لوٹے ہیں‘ وہ فاٹا میں کھیلوں کی سرگرمیوں کی بحالی کے حوالے سے پرامید ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ میرے دوروں (بیرونِ ملک منعقد ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں میں شرکت کے لیے) سے قبائلی نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوگی کہ وہ خیبر ایجنسی میں قائم کراٹے کلب میں شمولیت اختیار کریں۔‘‘
فرہاد شنواری نے اپنے کیریئر کا آغاز 1994ء میں لنڈی کوتل کے فاٹا کراٹے کلب میں شمولیت اختیار کرکے کیا تھا۔ انہوں نے 1998ء میں لاہور میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں بلیک بیلٹ حاصل کی اور بعدازاں 2000ء میں ایشین کراٹے چیمپئن شپ میں شرکت کی۔
انہوں نے میڈل کی جانب فخر سے اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’ میں نے فاٹا کے لیے گولڈ میڈل حاصل کیا۔‘‘
فرہاد شنواری نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 9/11کے سانحہ سے کچھ عرصہ قبل تک وہ کراٹے چیمپئن کے طور پر لطف اندوز ہورہے تھے لیکن بعدازاں ان کے قصبے کو عسکریت پسندی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ انہوں نے کہا کہ روز کچھ نہ کچھ برا ہوتا ہے جس سے کمیونٹی کے جوش و ولولے پر اوس پڑ رہی ہے۔
انہوں نے کہا:’’ 2002ء سے 2012ء کے درمیان وہ خطے میں عسکریت پسندی کے باعث بہت سے باصلاحیت کھلاڑیوں سے محروم ہوئے ہیں۔‘‘
فرہاد شنواری نے شکایت کی کہ کھیلوں کے حکام اور سپانر اداروں کی جانب سے سردمہری برتنے کے باعث قومی اور عالمی مقابلوں میں ملک کی نمائندگی کرنے والے کراٹے کے کھلاڑی اپنا کیریئر جاری نہیں رکھ سکتے اور انہوں نے اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے دیگر ملازمتیں اختیار کرلی ہیں۔
انہوں نے حکام کی جانب سے کھیلوں کی بحالی کے لیے منصوبہ بندی کیے جانے کا انتظار کرنے کی بجائے اپنے طور پر نوجوانوں کو مارشل آرٹس کی جانب راغب کرنے کے لیے کوشش شروع کر دی ہے۔ انہوں نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ فاٹا اولمپک کمیٹی کے تعاون سے ہم نے فاٹا سے تین کھلاڑیوں کو بنکاک اور کوالمپور میں ہونے والی عالمی کراٹے چیمپئن شپ میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا ہے۔‘‘
فاٹا میں کھیلوں کی ثقافت کے احیاء کی کوششوں کے ضمن میں فرہاد شنواری نے خیبرایجنسی کے شہر لنڈی کوتل میں کراٹے کلب ازسرِنو کھولا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق کھلاڑی نوجوانوں کو کلب میں شامل کر رہے ہیں اور ان کو کراٹے کے علاوہ دوسری کھیلوں جیسا کہ فٹ بال اور کرکٹ کی تربیت فراہم کر رہے ہیں۔
وہ مقامی انتظامیہ اور فاٹا اولمپکس کمیٹی کی وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں میں کھیلوں کی تقریبات کے انعقاد میں معاونت حاصل کرنے کے حوالے سے کوشاں ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ میں اب تک دو سو نوجوانوں اور باصلاحیت کھلاڑیوں کو تربیت فراہم کرچکا ہوں جو دنیا بھر میں فاٹا کے باسیوں کے مثبت تاثر کو اجاگر کریں گے۔ میں نے عالمی مقابلوں کے لیے کراٹے کے 90کھلاڑیوں کی تربیت کی ہے اور دو سو سے زائد کو تربیت فراہم کی جارہی ہے جو مستقبل میں عالمی مقابلوں میں حصہ لیں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ کھیل ہمیں صبر اور سماجی برائیوں کے خلاف متحد ہونے کا درس دیتے ہیں۔
فرہاد شنواری نے کہا:’’ خطے میں امن و امان کی بحالی کے ضمن میں کھیلوں کو بنیادی اہمیت دی جاسکتی ہے۔ عسکریت پسندی نے نہ صرف ہمارا انفراسٹرکچر تباہ کیا ہے بلکہ سماجی و ثقافتی ڈھانچے کو بھی متاثر کیا ہے۔‘‘
2007ء میں فرہاد شنواری اس وقت کھیلوں کی سرگرمیوں اور انسدادِ منشیات کے خلاف اپنی مہم کو روکنے پر مجبور ہوگئے جب فاٹا پر عسکریت پسندی غالب آگئی۔ 2007ء میں لنڈی کوتل میں کراٹے کلب کے قریب بم دھماکہ ہوا تو تربیت حاصل کرنے والے کھلاڑیوں نے رفتہ رفتہ کلب کا رُخ کرنا چھوڑ دیا۔
مذکورہ کھلاڑی جب واپس نہیں آئے تو وہ فاٹا میں اپنے تربیتی سنٹر اور کراٹے کلب بند کرنے پر مجبورہوگئے۔ وہ اپنے کچھ شاگردوں کے اس فیصلے سے خوش نہیں تھے جنہوں نے کراٹے کی تربیت حاصل کرنا چھوڑدی تھی اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے 10سب سے زیادہ باصلاحیت کھلاڑیوں نے، جنہوں نے کراٹے کے عالمی مقابلوں میں حصہ لیا، فاٹا چھوڑ گئے اور دوسرے پیشوں سے وابستہ ہوگئے۔ کراٹے اور دوسرے کھیلوں میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے والے مزید کھلاڑی فاٹا میں امن وامان کے ابتر حالات کے باعث بیرونِ ملک چلے گئے ہیں۔
انفرادی طور پر اور ایجنسی کی انتظامیہ کی جانب سے کھیلوں کی ثقافت کی بحالی کے لیے کی جانے والی کوششوں پر صرف کھلاڑی یا کھیلوں میں دلچسپی رکھنے والے لوگ ہی خوش نہیں ہیں بلکہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے کاروباری حضرات بھی مسرور نظر آتے ہیں۔
خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے بزنس مین حاجی دلاور خان آفریدی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کھیلوں کو ترقی اور قیامِ امن کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کھیل سماج دشمن عناصر کا تدارک کرنے کے علاوہ منشیات کے استعمال کے رجحان پر قابو پانے میں بھی مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
فاٹااولمپکس کمیٹی کے جنرل سیکرٹری شاہد خان نے کہا کہ خطے میں کھیلوں کا بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے جیسا کہ عثمان شنواری نے حال ہی میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی جانب سے سری لنکا اور متحدہ عرب امارات کے خلاف کھیلا ہے۔
شاہد خان نے کہا کہ کمیٹی نے 2013ء میں کوشش کی اور فاٹا کو انٹرنیشنل اولمپکس آرگنائزیشن میں رجسٹرڈ کروایا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پورے خطے سے کرکٹ، ہاکی، فٹ بال اور ایتھلیٹک ٹیموں کو رجسٹرڈ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ 2013ء سے قبل یہ کھلاڑیوں کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ فاٹا میں کھیلوں کا انعقاد کرتے یا کھیلوں کے کسی بھی قسم کے مقابلے میں حصہ لیتے، حتیٰ کہ حکومت نے بھی نہ صرف کھیلوں بلکہ ثقافتی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کی۔‘‘
فرسٹ کلاس فٹ بال کے سابق کھلاڑی اور فاٹا میں کھیلوں کے منتظم معین خان کہتے ہیں:’’ یہ حقیقت کسی سے پنہاں نہیں ہے کہ فاٹا تاریخ کے ایک اہم دور سے گزر رہا ہے جس سے نہ صرف ایک عام شخص متاثر ہورہا ہے بلکہ فنکار، سیاست دان، کھلاڑی اور امدادی کارکن بھی حالات کو معمول پر لانے اور امن و امان کے قیام کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔اب وہ وقت آگیا ہے کہ سماجی برائیوں اور ان عناصر کے خلاف متحد ہوا جائے جو ملک کو توڑنے کے درپے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ بہت سے ایسے طریقے اختیار کیے گئے جن کے ذریعے نوجوانوں کو صحت مندانہ سرگرمیوں کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ تمام ناکام رہے۔ انہوں نے فاٹا بھر میں ثقافتی اور کھیلوں کی سرگرمیوں کے انعقاد کی تجویزبھی دی جس سے نہ صرف امن کا پیغام عام ہوگا بلکہ مقامی آبادی کو زندگی کی جانب واپس لوٹنے کا حوصلہ بھی ملے گا۔
Home Other Languages Urdu Stories فاٹا کے کھلاڑی دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں کھیلوں کی سرگرمیوں...