کراچی: درست تفتیش نہ ہونے کے باعث جرائم پیشہ افراد کی عدالتوں سے رہائی کے امکانات بڑھ گئے

0
4118

کراچی (تہمینہ قریشی سے) ستمبر 2013ء میں سندھ پولیس اور رینجرز کے جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے خلاف عوامی حلقوں میں زیرِبحث رہنے والے آپریشن کے بعد سے کراچی کی انسدادِ دہشت گردی کی نو عدالتوں میں مجموعی طور پر بھیجے گئے مقدمات میں سے صرف 6.9فی صد میں ہی ملزموں کو سزا سنائی گئی ہے۔ 
سندھ پولیس کی جانب سے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کیے جانے والے کریک ڈاؤن میں کامیابی کا اندازہ مرتب کرنے کے لیے فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق انسدادِ دہشت گردی کی تمام نو عدالتوں میں 2,571مشتبہ افراد کے خلاف مقدمہ چلا‘ انسدادِ دہشت گردی کی ان نو عدالتوں میں سے پانچ 2014ء کے دوسرے نصف میں قائم ہوئیں لیکن صرف 179مقدمات میں ہی ملزموں کو سزا سنائی جاسکی۔
قبل ازیں جنوری میں بدنام زمانہ بھتہ خور وسیم بیٹر کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے رہا کردیا تھا جب ان کے خلاف عاید کیے گئے الزامات عدالت میں ثابت نہیں ہوسکے تھے جس کے باعث ان کو ’’شک کا فائدہ‘‘ دیتے ہوئے بری کر دیا گیا تھا۔ 
اسی طرح مذکورہ بالا اعداد و شمار سے یہ بھی منکشف ہوتا ہے کہ ستمبر 2013ء کے بعد سے عدالتوں میں بھیجے گئے مجموعی طور پر 23,396مقدمات میں سے صرف 1,454کے مقدمات کا ہی فیصلہ سنایا جاسکا ہے اور یہ شرح صرف 6.2فی صد بنتی ہے۔ 
حتیٰ کہ شہید پولیس افسروں کے انتہائی اہم مقدمات کا بھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا جس کی ایک مثال شہید ایس پی اسلم خان کا کیس ہے۔ نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے ان کی بیوہ نورین اسلم نے کہا کہ ان کے شوہر کی شہادت کو ایک برس کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن تفتیش کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ 
وہ جو خطرات کی زد پر ہیں
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے خصوصی پبلک پراسیکیوٹر عبدالمعاروف بہت سے اہم مقدمات کا حصہ رہ چکے ہیں جن میں صحافی ولی بابر کے قتل کا مقدمہ بھی شامل ہے۔ ان کے گھر پر ہونے والے دو بم حملوں اور جہلم میں اپنے بھائی کے قتل کے بعد وہ اپنی جان بچانے کے لیے بیرونِ ملک جاچکے ہیں۔
عبدالمعاروف نے کہا کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں سنگین جرائم میں ملوث ملزموں کے خلاف چلنے والے مقدمات میں ان کو ردِعمل کے خوف سے سزا نہیں سنائی جاتی۔ 
انہوں نے کہا:’’ میرے ساتھ کام کرنے والے دیگر وکلاء اور خود مجھے ہر دوسرے روز جرائم پیشہ عناصرکی جانب سے ججوں کے سامنے دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں۔ میں نے محکمۂ داخلہ سے متعدد بار درخواست کی کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کرنے والے ان وکلاء کو سکیورٹی فراہم کی جائے جو تحریکِ طالبان اور لشکرِ جھنگوی سے تعلق رکھنے والے مبینہ ملزموں کے مقدمات میں استغاثہ کی جانب سے پیش ہو رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ان خطرات کے باعث ہی تفتیشی افسر خوف زدہ ہوکر طاقت ورسیاسی گروپوں یا عسکریت پسندگروہوں سے منسلک ملزموں کے خلاف چارج شیٹ میں غلط معلومات درج کرتے ہیں یا اہم تفصیلات حذفس کردیتے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اگر مبینہ ملزم نے سرخ رنگ کی قمیص زیبِ تن کررکھی ہو تو چارج شیٹ میں یہ درج کیا جائے گا کہ اس نے سفید یا سیاہ رنگ کی قمیص پہن رکھی تھی۔‘‘
غیر مؤثر پولیسنگ
دوسری جانب مقدمات کی بڑی تعداد پولیس افسروں کی جانب سے ناقص پولیسنگ اور شواہد اکٹھا کرنے کے غلط طریقوں کے باعث متاثر ہورہی ہے۔
ڈی ایس پی فرانزک فراج بخاری نے نیوزلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ سندھ پولیس میں ایک الگ فارنزک ڈویژن قائم ہے لیکن اس سے منسلک عملہ ناکافی ہے۔
انہوں نے کہا:’’ پولیس افسر ہنوز یہ ادراک نہیں کرپائے کہ ہم تک مقررہ وقت یعنی 24گھنٹوں میں شواہد پہنچانا کس قدر اہم ہے ‘ دوسری صورت میں عدالت کی جانب سے ان شواہد کو قبول نہیں کیا جاتا۔ اگر کسی ثبوت کی فراہمی میں اس سے زیادہ وقت صرف ہوتا ہے تو مبینہ ملزم کے خلاف قائم مقدمہ شک کے فائدے کے قانون کی بنا پرکمزور ہوجاتا ہے۔‘‘
فراج بخاری نے کہاکہ ایک اور اہم مسئلہ یہ درپیش ہے کہ بیش تر تفتیشی افسر جائے وقوعہ پر نہیں جاتے اور بنیادی طو رپر صرف ان دستاویزات پر انحصار کرتے ہیں جن تک ان کی رسائی ممکن ہوپاتی ہے جو اکثر اوقات ناقص اور نامکمل ہوتی ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ صرف چند برس قبل تک شواہد جمع کرنے کی ذمہ داری فرانزک ڈیپارٹمنٹ کی تھی۔ فراج بخاری نے مزید کہا:’’ کرائم سین یونٹ جائے وقوعہ کا دورہ کرتا اور جدید آلات کے ذریعے شواہد اکٹھا کرتا تاہم ایسا صرف ایک یونٹ ہی فارنزک ڈیپارٹمنٹ کی صوابدید پر تھا جب کہ روزانہ پانچ سے چھ قتل ہوتے جس کے باعث ان سب کے شواہد اکٹھا کرنا ناممکن ہوگیا۔‘‘
ان معاملات کو آسان بنانے کے لیے 2013ء میں الگ کرائم سین یونٹ قائم کیے گئے جن کانگران ذونل پولیس سربراہوں کو بنایا گیا۔
ڈی آئی جی ساؤتھ عبدالخلیق شیخ نے کہا کہ بیش تر ڈی آئی جی چوں کہ بہت زیادہ مصروف ہوتے ہیں جس کے باعث وہ فعال انداز سے کرائم سین یونٹوں کی جانب سے جمع کیے گئے شواہد کا جائزہ نہیں لے پاتے۔ لیکن گزشتہ برس سندھ پولیس نے بیرونی اداروں کی خدمات حاصل کیں جنہوں نے پولیس افسروں کی شواہد اکٹھا کرنے اور جائے وقوعہ کا جائزہ لینے کے حوالے سے تربیت فراہم کی۔
ایک پولیس اہل کار اسسٹنٹ سب انسپکٹرعمران، جو کرائم سین یونٹ ساؤتھ میں خدمات انجام دے رہے ہیں، نے کہا کہ ان کا یونٹ ایک دن میں ان دو مقامات پر جاتا ہے جہاں پر واردات ہوئی ہو لیکن چوں کہ یہ ایک پوش علاقہ ہے جس کے باعث چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں زیادہ ہوتی ہیں۔
کراچی پولیس کے سرجن جلیل قادر نے کہا کہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف عاید الزامات ثابت کرنے کے ضمن میں واقعاتی شواہد انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ تاہم عمومی طور پر جب کوئی وقوعہ رپورٹ ہوتا ہے تویہ غیر مؤثر یاضائع ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ مثال کے طور پر زیادتی کے واقعات میں خاندان اور خواتین عمومی طور پر پولیس سٹیشن کا رُخ کرتی ہیں جب کہ ان کو فوری طور پر ہسپتال جانا چاہیے تاکہ ان کا نہ صرف طبی معائنہ ہوسکے بلکہ ڈی این اے کے شواہد بھی حاصل کیے جاسکیں۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ پولیس کی جانب سے ان کو طبی جائزے کے لیے سرکاری ہسپتال بھیج دیا جاتا ہے جس کے باعث مزید دو دن ضایع ہوجاتے ہیں اور یوں ڈی این اے کا ثبوت مؤثر نہیں رہتا۔‘‘
زیادتی کے مقدمات میں ملوث ملزموں کو سزا ملنے کی شرح انتہائی پریشان کن ہے۔ کراچی کے مختلف پولیس سٹیشنوں میں رجسٹرڈ ہونے والے 487زیادتی کے مقدمات میں سے صرف 67مقدمات عدالت میں زیرِسماعت آئے اور 11افراد کو سزا سنائی گئی اور وہ بھی جرم کے سرزد ہونے کے چار برس بعد فیصلہ ہوا۔ 
ڈی ایس پی فراج بخاری کہتے ہیں کہ ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پولیس اہل کاروں کی سزاؤں کے تعین کے حوالے سے موجود قوانین کے بارے میں معلومات انتہائی ناقص ہیں۔ یہ ایک عام رجحان ہے کہ ایک تفتیشی افسر ایسے مشکوک شخص کو چھوڑ دے گا جو غیرقانونی طور پر اسلحہ رکھنے کے جرم میں زیرِ حراست رکھاجاسکتا ہے کیوں کہ اول الذکر فریق کی زیادہ دلچسپی اس پہلو کی جانب ہوگی کہ وہ کسی بھی قسم کے ثبوت کے بغیر قتل کا الزام عاید کرڈالے۔ 
انسانی حقوق کے کارکن اور قانون دان ضیاء اعوان اس نقطۂ نظر سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں:’’ بیش تر پولیس افسروں نے اس کتابچے کا مطالعہ نہیں کیا جو تعزیراتِ پاکستان کہلاتا ہے جس کے باعث وہ ایک طرح سے بصارت سے محروم رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔‘‘
تاہم ڈی آئی جی ساؤتھ عبدالخلیق شیخ کہتے ہیں کہ کراچی کی دو کروڑ آبادی کے تحفظ کی ذمہ داری صرف 32ہزار پولیس اہل کار ادا کررہے ہیں۔ ان کی ڈیوٹی کے اوقاتِ کار 12گھنٹے تک ہیں‘ اکثر اوقات اس وقت تفتیش کی اہمیت دھندلا جاتی ہے جب سکیورٹی اور امن وامان کی صورتِ حال کو برقرار رکھنا پولیس اہل کاروں کی اولین ترجیح بن جاتی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here