کراچی میں شہریوں کی حفاظت پر مامور پولیس اہل کاروں کے بجائے سکیورٹی گارڈز کی تعداد بڑھ گئی

0
4744

کراچی (تہمینہ درانی سے) تشدد سے متاثرہ شہرِ قائد میں ہر 1524شہریوں کی حفاظت کے لیے اوسطاً چار نجی سکیورٹی گارڈز خدمات انجام دے رہے ہیں جب کہ اس کے برعکس غیرتربیت یافتہ اور انتہائی کم تنخواہ پانے والا ایک پولیس اہل کار ہی یہ فرض ادا کررہا ہے۔ 
سندھ پولیس اور نجی سکیورٹی کمپنیوں کے نگران ادارے آل پاکستان سکیورٹی ایجنسیز ایسوسی ایشن (اے پی ایس اے اے )سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق دو کروڑ 20لاکھ شہریوں کی حفاظت کے لیے سندھ پولیس کے 14,433اہل کار تعینات ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں نجی سکیورٹی گارڈز کی تعداد55ہزار ہے۔
اے پی ایس اے اے سے منسلک کرنل توقیر الاسلام نے کہا: ’’اس وقت سندھ میں تقریباً 213سکیورٹی فرمز کام کر رہی ہیں جن میں سے 190ہمارے ساتھ رجسٹرڈ ہیں اور ان سے منسلک سکیورٹی گارڈز کی تعداد 55ہزار ہے۔ علاوہ ازیں 20ہزارسکیورٹی گارڈز سندھ بھر میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔‘‘ 
دوسری جانب سندھ پولیس کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطاق کراچی پولیس میں مجموعی طور پرآسامیوں کی تعداد 31ہزار ہے جن میں سے 26,847پُر ہوچکی ہیں۔
تاہم ان 26,847پولیس اہل کاروں میں سے ایک بڑی تعداد یعنی 31فی صد سینئر سرکاری حکام اور دفاتر میں سکیورٹی فراہم کرنے پر مامور ہیں۔
اسی طرح پولیس کی 11.5فی صدفورس یعنی تین ہزار اہل کار تفتیشی یونٹوں میں تعینات ہیں جس کے باعث صرف 14,433پولیس اہل کارباقی بچ جاتے ہیں جو کراچی کے تمام 103پولیس سٹیشنوں میں 12گھنٹوں کی دو شفٹوں میں ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔
ان حالات میں جب پولیس اہل کار پیشہ ورانہ تربیت سے نابلد ہیں تو کراچی کے شہریوں کو بڑی حد تک اپنی حفاظت خود کرنا پڑتی ہے۔ 
سندھ پولیس کے سربراہ غلام حیدر جمالی کے مطابق صوبے میں پولیس کے اہل کاروں کی تعداد ایک لاکھ سات ہزار ہے جن میں سے 31ہزار کراچی میں تعینات ہیں جب کہ تقریباً 27ہزار اہل کار میدان میں کارروائیوں کے لیے دستیاب ہیں۔ 
دوسری جانب شہر میں نجی سکیورٹی گارڈز ہر جانب دیکھے جاسکتے ہیں‘ وہ بینکوں، قونصل خانوں، فیکٹریوں، دفاتر،مختلف علاقوں اور گھروں پر تعینات فرائض انجام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
گلستانِ جوہر کی ایک سپر مارکیٹ کے مالک کا کہنا تھا:’’ پولیس جتنی دیر میں جائے وقوعہ پر پہنچتی ہے‘ اتنی دیر میں جرم ہوچکا ہوتا ہے۔ اگرچہ مجھے سکیورٹی کمپنی کوہر گارڈ کی 10سے 12ہزارروپے تنخواہ ادا کرنا پڑتی ہے جب کہ اس وقت چار گارڈز میری سپرمارکیٹ پر 12گھنٹوں کی دو شفٹوں میں کام کر رہے ہیں‘ انہوں نے کم از کم ہتھیار ضرور اٹھا رکھے ہیں اور وہ ہمہ وقت موقع پر موجود ہوں گے جب بھی کوئی مجھے لوٹنے آئے گا۔‘‘
کرنل توقیر الاسلام نے خبردار کیاکہ اس کا قطعی طور پر ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سکیورٹی گارڈز پولیس اہل کاروں سے زیادہ تربیت یافتہ ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ اگرچہ یہ درست ہے کہ اگرچہ پولیس اہل کارمناسب پیشہ ورانہ تربیت کے حامل نہیں ہیں لیکن انہوں نے تربیت میں خاصا وقت صرف کیا ہوتاہے‘ خواہ یہ تربیت انہوں نے ملازمت شروع کرتے وقت ہی کیوں نہ حاصل کی ہو۔ دوسری جانب ان گارڈز میں سے بڑی تعداد اس نوعیت کی کسی بھی تربیت کے عمل سے گزرے بغیر ملازمت پر رکھ لی جاتی ہے‘ ان کو نہ صرف اسلحہ فراہم کر دیا جاتا ہے بلکہ ڈیوٹی پر بھی بھیج دیا جاتا ہے۔‘‘
کرنل توقیرالاسلام نے کہا کہ کراچی میں نجی سکیورٹی گارڈز کی بڑی تعداد خیبر پختونخوا اور خاص طور پر قبائلی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے اور وہ کم سے کم تنخواہ پر کام کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا:’’ اگر کوئی شخص سکیورٹی کمپنی کو ایک سکیورٹی گارڈ کی 12ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ادا کرتا ہے تو سکیورٹی فرم اپنا کمیشن رکھ کر ملازمین کوآٹھ سے نو ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دیتی ہے۔‘‘
پولیس سے مشابہت
یہ ممکن ہے کہ نجی سکیورٹی گارڈز کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوجو اعداد و شمار مذکورہ بالا سطور میں بیان کیے گئے ہیں کیوں کہ کرنل توقیر الاسلام نے یہ نشاندہی کی ہے کہ نجی فرموں کی ایک بڑی تعداد لائسنس حاصل کیے بغیر آزادانہ طور پر کام کر رہی ہے۔ یہ سکیورٹی ادارے عمومی طور پر وہ ہیں جو زیادہ معاوضے پر گارڈز فراہم کرتے ہیں جن کانہ صرف یونیفارم بلکہ بہت سے اور عوامل بھی ان کو سندھ پولیس کی ایلیٹ فورس سے مشابہہ بنا دیتے ہیں۔
اے پی ایس اے اے کے قواعد کے مطابق تمام سکیورٹی گارڈز کو نیلا یونیفارم پہننا ہوتا ہے جس پران کی فرم کا نام یونیفارم کی اگلی طرف نمایاں طور پر چسپاں ہو، ’’ایلیٹ‘‘ سکیورٹی گارڈز کی ایک بڑی تعداد بھی فرائض انجام دیتے ہوئے دیکھی گئی ہے جن کی خدمات اکثر و بیش تر اعلیٰ عہدوں پرتعینات افسراور حتیٰ کہ سرکاری حکام اپنی ذاتی سکیورٹی کے لیے حاصل کرتے ہیں۔ 
کرنل توقیرالاسلام نے کہا:’’ یہ ہمارے قواعد کی واضح خلاف ورزی ہے اور نجی سکیورٹی فرموں کے سکیورٹی گارڈز کی وردیوں کی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاروں سے مماثلت غیر قانونی ہے۔ اگرچہ ہم ایسی کمپنیوں کے بارے میں سندھ کے محکمۂ داخلہ میں شکایت کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کے لائسنس منسوخ کر دیئے جائیں لیکن ان پرشاذ و نادر ہی کوئی کارروائی کی جاتی ہے۔‘‘
تاہم سیکرٹری داخلہ ڈاکٹر نیاز علی عباسی نے اس دعوے کو رَد کرتے ہوئے کہا کہ بہت سی کمپنیوں کو محکمۂ داخلہ کی جانب سے شوکاز نوٹس جاری کیے جاچکے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ان فرموں کی بڑی تعداد ریٹائرڈ فوجی افسروں نے قائم کررکھی ہے لیکن ان کو بہرحال قوانین پرضرور عمل کرنا چاہئے۔‘‘
تاہم انہوں نے کسی سکیورٹی فرم کے لائسنس معطل کرنے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ 
بیرونی امداد
شہر کی حساس صورتِ حال کے پیشِ نظر اورخاص طور پر ستمبر 2013ء میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف شروع ہونے والے آپریشن کے بعد شہر میں سندھ رینجرز کی موجودگی کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ 
رینجرز کے ترجمان کے مطابق کراچی میں اس وقت سات سے 10 ہزار رینجرز اہل کار خدمات انجام دے رہے ہیں تاہم وہ آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں یا پولیس کی درخواست پر ان کی مختلف کارروائیاں یا گرفتاریاں کرنے میں معاونت کرتے ہیں۔
قبل ازیں گزشتہ برس مئی میں رکنِ سندھ اسمبلی اویس مظفر ہاشمی کی سربراہی میں صوبے میں امن و امان کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے 10ہزار مزید پولیس اہل کاروں کو ملازمت دینے اورسپیشل ایلیٹ فورس کے لیے تین ہزار نئی آسامیاں پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ 
سندھ پولیس کے چیف حیدر جمالی نے تصدیق کی کہ سپیشل ایلیٹ فورس کے لیے تین ہزار نئی آسامیاں پیدا کی جاچکی ہیں اور ایک ہزار مزید خواتین کانسٹیبل رکھنے کا منصوبہ بھی تشکیل دیا جاچکا ہے۔
کراچی آپریشن کا ردِعمل
دوسری جانب کراچی پولیس کو شہر میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف جاری آپریشن کے باعث بدترین ردِعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
گزشتہ صرف ایک برس کے دوران ڈیوٹی سے واپس جارہے پولیس اہل کاروں اور پٹرولنگ کرنے والے دستوں پر ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے واقعات میں تقریباً140پولیس اہل کار جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
جنوری 2014ء میں شہر میں انسدادِ دہشت گردی کے نمایاں ترین افسر چودھری محمد اسلم کی گاڑی کو اس وقت بم دھماکے سے اڑا دیا گیا جب وہ اپنے کام پر جارہے تھے۔ 
فروری 2014ء میں شاہ لطیف ٹاؤن میں رزاق آباد پولیس ٹریننگ کیمپ کے نزدیک پولیس بس پر حملہ ہوا جس میں 13اہل کار شہید اور 47زخمی ہوگئے۔
ان دونوں حملوں کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here