لاہور ( شہریار ورائچ سے) اہلِ لاہور نے گزشتہ چند برسوں کے دوران شہر میں پرندوں کی تعداد میں کمی ہوتے دیکھی ہے۔ ماہرینِ ماحولیات یہ یقین رکھتے ہیں کہ بوڑھے درختوں کی موجودگی اور نوخیزدرختوں کی کٹائی کے باعث پرندے اس شہر میں مزید بسیرا کرنا پسند نہیں کر رہے۔
لاہور پاکستان کا دوسرا بڑا اور کراچی کے بعد سب سے زیادہ آلودہ شہر ہے۔ ماہرینِ ماحولیات حکومتی حکمتِ عملی کو اس صورتِ حال کے بگاڑ کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں ‘ شہر میں درختوں کی تعداد کم ہونے کے باعث سبزہ غائب ہو رہا ہے۔
سینئر ماہر نباتات پروفیسر ڈاکٹر منور صابر نے نیوز لینزپاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ بہت سے درخت اس قدر بوڑھے ہوچکے ہیں کہ ان سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ شہر کی تاریخی لاہور نہر ، منٹو پارک، لارنس گارڈن، ریس کورس پارک اور بہت سے دوسرے پارکوں میں سینکڑوں بوڑھے درخت نظر آتے ہیں جو نہ صرف ماحول کو متاثر کرنے کا باعث بن رہے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے زیرِزمین پانی کی سطح بھی کم ہورہی ہے۔‘‘
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے دائریکٹر سید محمد أبوبکر نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ بوڑھے درختوں میں پرندوں کے لیے کوئی کشش نہیں ہے اور وہ انہیں اپنے گھونسلے بنانے کے لیے منتخب نہیں کرتے۔ مزیدبرآں کیڑے مکوڑے بھی بوڑھے درختوں کو اپنا مسکن نہیں بناتے جو کہ پرندوں کی بنیادی خوراک ہیں۔ درختوں کی عمر جوں جوں بڑھتی ہے‘ و ہ زیادہ پانی جذب کرنے لگے ہیں۔ مزیدبرآں ان کی شاخیں 30سے 40فی صد گھٹ جاتی ہیں اور پتے گرنے لگتے ہیں۔‘‘
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ درختوں کی ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے کاربن کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت میں کمی آتی ہے جس کے باعث ان کے ماحولیاتی نظام پراثرانداز ہونے کی اہلیت متاثر ہوتی ہے ( درختوں کے کاربن کو محفوظ رکھنے کا انحصار ان کی مختلف اقسام پر ہے)۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے سینئر ڈائریکٹر ڈاکٹر اعجاز احمد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ درخت صرف زمین کی زرخیزی کو ہی برقرار نہیں رکھتے بلکہ اس کے کٹاؤ کو بھی روکتے ہیں‘ یہ زیرِزمین پانی کی سطح کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں کیوں کہ ان کی بڑے پیمانے پرزیرِ زمین پھیلی جڑیں بارش کے پانی کو جذب کرلیتی ہیں اور یوں پانی کی سطح برقرار رہتی ہے اور اس کی مقدارمیں کوئی کمی نہیں آتی۔ اگر کسی بھی مقصد کی وجہ سے درختوں کو کاٹا جاتا ہے تو زیرِزمین پانی کی سطح متاثر ہوسکتی ہے کیوں کہ زمین پانی کی مناسب مقدار جذب کرنے کے قابل نہیں رہے گی ( اس کا انحصار زمین کی قسم پر ہے) جس کے باعث زمینی کٹاؤ بڑھ جائے گا۔‘‘
ماہرینِ نباتات کے مطابق اگرترقیاتی کاموں کے لیے بوڑھے درخت کاٹے جاتے ہیں یا ان کی جگہ نئے درخت لگائے جاتے ہیں تو اس صورت میں درختوں کی مقامی اقسام کو بڑی تعداد میں اگایا جائے کیوں کہ درآمد کیے گئے درختوں کو کاشت کرنے کی ٹیکنالوجی انتہائی مہنگی ہے۔
ڈاکٹر منور صابر کہتے ہیں:’’ ایک اور طریقہ یہ ہے کہ تیزی سے بڑھنے والے مقامی درختوں کو کاشت کیا جائے تاہم یہ بہتر ہوگا کہ اگر اسی نسل کے درخت کاشت کیے جائیں جو کاٹے جارہے ہیں تاکہ ماحولیاتی نظام ( ان علاقوں میں جانوروں و پرندوں کی زندگی) متاثر نہ ہو۔درختوں کی تعداد بڑھائی جاسکتی ہے تاکہ بوڑھے درختوں کی کٹائی سے ماحول کو پہنچنے والے نقصان کا جلد از جلد ازالہ ممکن ہوسکے۔‘‘انہوں نے مزید کہا:’’ حکومت کو لازمی طور پر مقامی درختوں کی جگہ بیرونی اقسام کاشت کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے کیوں کہ مقامی زمین ان کو قبول نہیں کرتی۔ بیرونی اقسام نہ صرف پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کی بقاء کے لیے خطرناک ہوتی ہیں بلکہ دوسرے درختوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔‘‘
مسکیت، جو کہ مقامی زبان میں ولایتی کیکر کہلاتا ہے، بیرونی اقسام کے درختوں کی ایک مثال ہے جو کہ مضر کیمیائی مادے خارج کرتا ہے جس سے دوسرے درختوں کی بقاء اور بڑھنے کے عمل پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر اعجاز احمد کہتے ہیں:’’ سب سے اہم یہ ہے کہ مقامی درخت علاقے میں جانوروں و پودوں کی بقاء میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اگر بیرونی اقسام کو کاشت کیا جاتا ہے تو اس سے کیڑے مکوڑوں کی بقاء خطرات کی زد پر آسکتی ہے اور اگر کیڑے مکوڑے ناپید ہوجاتے ہیں تو پرندوں کی خوراک ختم ہوجائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پورا ماحولیاتی نظام متاثر ہوگا جس کے براہِ راست اثرات انسانوں پر مرتب ہوں گے۔اس کی ایک مثال کاغذی توت کے درخت ہیں جو تین دہائیاں قبل جنوب مشرقی ایشیاء سے اسلام آباد اس مقصد کے لیے اگائے گئے تھے تاکہ دارالحکومت کی شادابی میں اضافہ ہو۔ لیکن یہ اقدام تباہ کن ثابت ہوا جیسا کہ کاغذی توت کے درخت دوسری اقسام پر حاوی آگئے اور اسلام آباد کے شہریوں میں پولن الرجی کا باعث بنے۔‘‘
پارکس اینڈ ہارٹیکلچر ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل شکیل احمد نے نیوز لینز پاکستان سے ٹیلی فون پربات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ماہرینِ نباتات نے حال ہی میں ایک منصوبہ تشکیل دیا ہے جس کے تحت بوڑھے درختوں کو کاٹنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا:’’ ہمارا محکمہ تبدیلی کے اس عمل پر کام کررہا ہے اور امید ہے کہ اگر معاملات درست طور پر انجام پاتے ہیں توایسا ممکن ہوجائے گا۔‘‘
ماہرینِ ماحولیات و نباتات کہتے ہیں کہ اس وقت ذرائع کو بہتر طور پر منتظم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ماحولیاتی نظام متاثر نہ ہو۔ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اگر گرین بیلٹس کو چوڑا کیا جاتا ہے اور درختوں کو بڑے پیمانے پر اگایا جاتا ہے تو اس کے انسانوں، پرندوں، جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کی بقاء پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔