لاہور ( احسان قادر سے) سانحہ پشاور کے بعد پاکستان میں شروع ہونے والی بحث کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے سزائے موت پر عاید کی گئی عارضی پابندی ختم کر دی ہے جس کے باعث دہشت گرد عناصر اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے نقطۂ نظر میں ہم آہنگی پیدا ہوگئی ہے۔
پشاور آرمی پبلک سکول میں ہونے والے قتل عام میں 134بچوں سمیت 150افرادشہید ہوگئے تھے جس کے ردِعمل میں پاکستان نے عسکریت پسندوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کے لیے سزائے موت پر عاید پابندی ختم کر دی تھی۔
جیل حکام کی جانب سے فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پابندی ختم ہونے کے بعد ملک بھر میں سزائے موت کے 20قیدیوں کو تختہ دار پر لٹکایا جاچکا ہے۔
سزائے موت کے قیدیوں کی سزا پر 2008ء میں اس وقت عملدرآمد روک دیا گیا تھا جب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت نے عارضی پابندی کی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ پابندی ختم کیے جانے سے سماجی و قانونی حلقوں کے علاوہ انسانی حقوق کے کارکنوں میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے جو مختلف آراء کا اظہار کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 8ہزار قیدی سزائے موت کے منتظر ہیں۔
نیوز لینز پاکستان سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے انسانی حقوق کی کارکن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے اس حکومتی فیصلے کی حمایت نہیں کی۔ انہوں نے کہا:’’ سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی سزا پر عملدرآمدکا فیصلہ حکومت نے سانحہ پشاور کے ردِعمل میں جذبات میں آکر کیا ہے۔ ‘‘ ان کا یہ خیال تھا کہ حکومت کو دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے مربوط پالیسی کی تشکیل کے علاوہ فوجداری عدالتی نظام کو مؤثر بنانا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا:’’ پاکستان میں ماضی میں اس حوالے سے کیے جانے والے اقدامات سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ حکومت نے دہشت گردی کے خلاف قوانین جلدبازی میں تشکیل دیے جس کے باعث طاقت ور اپنے بچاؤ میں کامیاب رہے جب کہ غریب آبادی ان فیصلوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔‘‘ انہوں نے اس خیال کا اظہار بھی کیا کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا اس کے علاوہ کوئی حل نہیں کہ درست فیصلے کیے جائیں اور قانون کے سامنے سب برابر ہوں۔
سسٹمز سافٹ ویئر کمپنی سے منسلک کلرک 24برس کے جمال خان تمام جرائم پیشہ عناصر کو عبرت ناک سزا دیے جانے کے انتظار میں ہیں۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ان تمام طالبان عسکریت پسندوں کو بغیرکسی تاخیر کے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جائے جنہوں نے ہمارے بچوں کو شہید کیا ہے۔‘‘
33برس کے عمران احمد ، جو کہ پیشے کے اعتبار سے دکاندار ہیں، نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ اگر تمام طالبان دہشت گردوں کو ایک ساتھ پھانسی دے دی جائے تو کوئی پاکستان پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کو سبق دینے کے لیے جرائم پیشہ عناصر کو پھانسی کے پھندے پر لٹکانے کے علاوہ کوئی دوسرا حل موجود نہیں ہے۔
معروف کالم نگار و انسانی حقوق کے کارکن آئی اے رحمان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ دہشت گردوں کو دی جانے والی پھانسی کی سزا کی ستائش کرتے ہیں کیوں کہ سانحہ پشاور کے بعد حالات ایسے بن گئے تھے کہ ان کے خلاف فوری کارروائی کی جاتی۔ پوری قوم کی یہ خواہش ہے کہ ان کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ تاہم انہوں نے کہا:’’ پھانسیاں یا فوجی عدالتیں اس مسئلے کادیرپا حل نہیں ہیں۔ ان مجرموں کو سزائے موت نہیں دی جانی چاہیے جو دہشت گرد نہیں ہیں جب کہ ان کے خلاف جاری مقدمے کی کارروائی میں بھی کوئی سقم نہیں رہنا چاہیے۔‘‘
حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ تمام مجرموں کو سزائے موت دے۔ آئی اے رحمان نے اس رائے کا اظہار کیا کہ’’ دہشت گردی کی وجوہات کی کھوج کی جائے اور پھر اس مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔ دوسری صورت میں ہم مزید پرتشدد کارروائیاں رونما ہوتے دیکھ سکیں گے۔‘‘