پشاور (توصیف الرحمان سے) آرمی پبلک سکول کا طالب علم دانیال خاموش رہنے لگا ہے۔ جماعت چہارم کے طالب علم نے 16دسمبر2014ء کو عسکریت پسندوں کی جانب سے اپنے ہم جماعتوں کا قتلِ عام ہوتے دیکھا تھا‘ دانیال کے والدمشتاق علی کے مطابق اس کے ’’ رویوں میں واضح تبدیلی‘‘ نظر آرہی ہے۔
مشتاق علی بتاتے ہیں:’’ دانیال ایک شرارتی اور تیز طرار طالب علم تھا لیکن دہشت گرد حملے کے بعدسے وہ غائب الدماغ اور سوچوں میں گم رہتا ہے۔‘‘
16دسمبر کو سات عسکریت پسندوں نے آرمی پبلک سکول پر حملہ کرکے 134بچوں سمیت 151افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ ایک بڑی عسکریت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، جس کے خلاف سکیورٹی فورسز کارروائی کر رہی ہیں،نے اس سانحہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ماہرینِ نفسیات کے مطابق پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے سکول میں ہونے والی خون ریزی ،جس نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا،کے ان بچوں پر، جنہوں نے یہ سانحہ اپنی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوتے دیکھا اور ان خاندانوں پر، جنہوں نے اپنے بچے کھوئے، دور رَس نفسیاتی اثرات مرتب ہوں گے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک ماہرِ نفسیات ڈاکٹر میاں افتخار حسین نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ سانحہ آنے والے برسوں کے دوران بچوں، والدین اور خاندان کے ارکان کے ذہنوں پرسوار رہے گا۔
ڈاکٹر افتخار نے کہا:’’ طالب علموں اور والدین حادثہ کے بعد کے دباؤ، ذہنی تناؤ اور تشویش کا شکار ہیں۔‘‘
جماعت ششم کا ایک طالب علم نعمان خان ذہنی طور پر اس حادثے سے اس قدر متاثر ہوا کہ وہ سانحہ کے دو دن بعدتک بول نہیں سکا۔ نعمان کے والد ہارون خان نے کہا:’’ وہ ہنوز بہت زیادہ خوف زدہ ہے۔ہم یہ جدوجہد کی کہ اس کو بولنے پر مجبور کریں تاکہ وہ اس صدمے کے اثرات سے باہر نکلے سکے۔‘‘
ہارون خان کے دو بیٹے اس وقت سکول میں موجود تھے جب عسکریت پسندوں نے حملہ کیا۔ ان کے اہلخانہ کہتے ہیں کہ وہ دونوں ہنوز اس صدمے سے متاثر اور اس کے زیرِ اثر ہیں۔‘‘ہارون خان نے نیوزلینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں گھر سے باہر نہ جاؤں، انہوں نے ایسا ماضی میں کبھی نہیں کیا تھا۔‘‘
ماہرِ نفسیات ڈاکٹر میاں افتحار حسین نے کہا کہ بچے صدمے کے زیرِ اثر ہیں لیکن ان کے والدین بھی یکساں طور پرلیکن خاموشی سے ایسی ہی کیفیات سے دوچار ہیں۔
مثال کے طور پر ہارون کو رات کے وقت سونے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کی بھوک ختم ہوچکی ہے‘ ڈاکٹر افتخارکے مطابق یہ علامتیں جذباتی ہیجان اور ذہنی تناؤ کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔
ہارون نے کہا:’’ میں رات بھرسو نہیں سکتا‘اپنے بچوں کے تحفظ اور اس سانحہ کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں جسے زندگی بھر فراموش نہیں کرسکوں گا۔‘‘
بہت سے والدین صدمہ کے باعث دباؤ کا شکار ہیں‘ ہارون کے ذہن میں اس دن کی یادداشتیں واضح ہیں اور یہ تاحال ان کے ذہن پر سوار ہیں‘وہ کہتے ہیں: ’’ میں دہشت گردی کے سانحہ کے فوراً بعد سکول پہنچ گیا تھا۔ میں نے گولیوں اور بم دھماکوں کی آواز سنی لیکن کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ میں اس بے بسی، عدم تحفظ اور افسردگی کو فراموش نہیں کر پاؤں گا جو میں نے ان گھنٹوں کے دوران محسوس کی جب میں سکول کے باہرکھڑا بچوں کے باہر آنے کا انتظار کر رہا تھا، میں اپنے بچوں کے حوالے سے پرامید اور دعا گو تھا۔ ‘‘
ڈاکٹر افتخار کے مطابق والدین میں ناامیدی، بے بسی، دکھ اورکمزور ہونے کا احساس بڑھ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی کارروائی حوصلہ شکن اور غیرمعمولی تھی ‘ اور اس کے بچوں، والدین، ان کے دوستوں اورا ہل خانہ کے ارکان پر نفسیاتی اثرات مرتب ہوں گے۔
ایک قانون دان ارشد عالم نے نیوز لینز کو بتایا کہ ان کے دو بھانجے اس وقت سکول میں تھے جو اس سانحہ میں بچ گئے۔ تاہم دہشت گردی کے اس سانحہ نے ان کی بہن کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ ارشاد عالم کہتے ہیں:’’ وہ بہت زیادہ عدم تحفظ کا شکار ہوچکی ہیں ‘ جس کے باعث انہوں نے سکول میں ہیلپر کے طور پرملازمت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ سارا وقت اپنے بچوں کے ساتھ رہ سکیں۔‘‘
ڈاکٹر افتخارنے والدین اور طالب علموں کے فوری نفسیاتی علاج کی ضرورت پر زور دیا جو اس حادثے میں زخمی ہوئے تھے یا بچ گئے تھے۔
ڈاکٹر افتخار کہتے ہیں:’’ نفسیاتی معاونت کی فوری فراہمی حادثے کے بعد کے دباؤاور دیگر نفسیاتی عارضوں سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ ملک کے دوسرے حصوں کے بچوں کو بھی نفسیاتی معاونت فراہم کی جانی چاہیے جو اگرچہ جغرافیائی اعبار سے دور ہیں لیکن اس خون ریز سانحہ کے باعث تاحال مشکلات کا شکارہیں۔‘‘
نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق سانحہ کی شدت کے باعث وزارتِ این ایچ ایس جلد ہی ان بچوں کے لیے ’’ حادثے کے بعد کے ذہنی تناؤ کی نگرانی‘‘ کے کونسلنگ سیشن شروع کر رہی ہے جو اس دہشت گردی کے سانحہ میں بچ گئے تھے۔
وزارت این ایچ ایس ایک کمیٹی تشکیل دے چکی ہے جس میں آرمی میڈیکل کور، پشاور اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ماہرینِ نفسیات، اقوامِ متحدہ کی ایجنسیوں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ، یونیسیف اور یو این چلڈرن فنڈ کے نمائندے شامل ہیں۔
یہ کمیٹی آرمی پبلک سکول کے بچوں اور ان کے والدین کی جامع کونسلنگ کے لیے منصوبہ تشکیل دے گی۔ علاوہ ازیںیہ دوسرے سکولوں کے بچوں کے لیے بھی معاونتی نشستوں کا اہتمام کرے گی۔
عالمی ادارۂ صحت کی 2009ء میں شایع ہونے والی رپورٹ ’’ پاکستان میں ذہنی صحت کا نظام‘‘ کے مطابق پاکستان میں صرف 342سائیکاٹرسٹ اور 478سائیکالوجسٹ ہیں۔
ہیلتھ سروسز خیبرپختونخوا کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر عبدالغفور نے کہا:’’ اس وقت ضرورت اس اِمر کی ہے کہ حکومت اپنے تمام تر وسائل کو استعمال میں لاتے ہوئے فوری طور پر بچوں اور ان کے خاندانوں کے نفسیاتی علاج کے لیے اقدامات کرے۔‘‘