لاہور:سڑک چوڑا کرنے کے لیے نہر کے اطراف میں درختوں کی کٹائی

0
4890

عدالتی احکامات کی واضح خلاف ورزی، آلودگی کی شرح میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوسکتا ہے: ماہرین
لاہور( شہریار وڑائچ سے) لاہور کا پبلک ٹرسٹ و اربن ہریٹیج پارک حکومتِ پنجاب کے کنال روڈ کو چوڑا کرنے کے لیے درختوں کو کاٹنے کے عمل کے باعث خطرات کی زد پر ہے۔ ماہرینِ ماحولیات کے مطابق ایسا پاکستان کے دوسرے سب سے آلودہ شہر میں کیا جارہا ہے۔
لاہور کی نہر ایک تاریخی ورثہ ہے اور شہر کی مصروف ترین گزرگاہ ہے جس سے نہ صرف بڑے پیمانے پر ٹریفک گزرتی ہے بلکہ اطراف میں لہلاتے درختوں کی بڑی تعداد ہوا میں موجود آلودگی کو جذب کرنے اور آکسیجن پیدا کرنے کے حوالے سے بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
لیکن لاہورکی نہر کو حکومت کی نئی سڑکوں کی تعمیر کی پالیسی کے تحت تبدیل کیا جا رہا ہے۔ حکومت کنال روڈ کو چوڑا کرنے کے لیے6سو درختوں کو کاٹ چکی ہے۔
یہ نہر پر ٹریفک کے بہاؤ کو بحال رکھنے کے لیے 2009-2010ء کے بعد دوسرا منصوبہ ہے جس میں سڑک کو چوڑا کرنے اور انڈرپاسز کی تعمیر کے لیے کئی سو درختوں کو کاٹ دیا گیا تھا۔
2011ء میں سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے فیصلے کے مطابق نہر کے اطراف میں درختوں کو کاٹنا نہ صرف ممنوع ہے بلکہ اس پر پابندی عاید ہے۔
سیو لاہور موومنٹ کی جنرل سیکرٹری عمرانہ ٹوانہ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے نہر کو ’’پبلک ٹرسٹ اینڈ اربن ہریٹیج پارک‘‘ قرار دیا تھا جو کہ ایک سنگِ میل ہے اور پورے ایشیا میں اپنی نوعیت کا واحدباغ ہے۔
نہرکے اطراف میں درختوں کی کٹائی کو روکنے کے لیے پنجاب اسمبلی نے 2013ء میں ’’کنال ہریٹیج ایکٹ‘‘ منظور کیا تھاجس کے تحت نہر کے اردگرد تعمیراتی کاموں، درختوں کی کٹائی اور ان کو نقصان پہنچانے کو فوجداری جرم قرار دیا گیا تھا۔ یہ قانون ٹھوکر نیاز بیگ سے جلو پارک تک کے علاقے پر لاگو ہوتا ہے جو نہر کے اطراف میں ایک طویل راستہ ہے جہاں پر اس قانون کی خلاف ورزی کی جا چکی ہے۔
حالیہ کنال پراجیکٹ پر 9ارب روپے لاگت آئے گی۔ حکام لاہور کی نہر کے اطراف میں ٹریفک کے بہاؤ کو بحال رکھنے کے لیے اس منصوبے سے مطمئن ہیں۔ چیف انجینئر لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اسرار خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم نے سڑک کی تعمیر کے بعد مزید درخت لگانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ اس منصوبے پر عملدرآمد انتہائی اہم ہے اور یہ شہر کی ضروریات پورا کرے گا۔‘‘
عمرانہ ٹوانہ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ درختوں کی کٹائی اور لاہور کنال روڈ کو چوڑا کرنے کے منصوبے سے ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ پر قابو نہیں پایا جاسکتا کیوں کہ حکومتی ادارہ نیشنل انجینئرنگ سروسز پاکستان (نیسپاک) اس دعوے سے اختلاف کرتا ہے جو کہ دوسری ایجنسیوں کی جانب سے کیا جارہا ہے۔‘‘
ایل ڈی اے اور پنجاب حکومت نے قانون کی رو سے اس منصوبے پر کام شروع کرنے سے قبل انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) کی جانب سے ماحولیات پر ہونے والے اثرات کا تجزیہ نہیں کروایا اور نہ ہی نو آبجیکشن سرٹفیکیٹ لیا۔ورلڈ وائڈ فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے ڈائریکٹر جنرل حماد نقی خان نے کہا:’’ حکومت نے بدقسمتی سے اس اَمر پر دھیان نہیں دیا کہ درختوں کی کٹائی سے صحت کے مسائل پیدا ہوں گے جس کے باعث شہر میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہو گا۔‘‘
پنجاب کے وزیرِ ماحولیات شجاع خانزادہ نے کہا:’’ کنال روڈ پر ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ کے باعث ہم اسے چوڑا کرنے پرمجبور ہوئے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوامی مفادات میں اقدامات کرے۔
ان کا مزید کہنا تھا:’’ یہ عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی نہیں ہے بلک ٹریفک جام سے بچنے کی ایک کوشش ہے جو کہ شہر میں ہوا اور شور کی آلودگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔‘‘
عمرانہ ٹوانہ نے کہا کہ بے شمار درختوں اور سبزے کی قربانی دے کر سڑکوں کو چوڑا کرنا نہر پر ٹریفک جام سے بچنے کا کوئی حل نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ لاہور کی صرف آٹھ سے 10فی صد آبادی گاڑیاں استعمال کرتی ہے‘ چناں چہ حکومت کے یہ اقدامات اس کی ترجیحات کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آلودگی بلند ترین سطح پر ہے جس کے باعث درختوں کی کٹائی شہر کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
انوائرنمنٹ سٹڈیز کے پروفیسر منور صابر نے کہاکہ کنال روڈ کا سبزہ درجہ حرارت اور آلودگی میں کمی کے لیے انتہائی اہم ہے۔
انہوں نے کہا:’’کاٹے گئے درخت تین سو برس پرانے تھے۔ مزید برآں حکومت ‘یونیورسٹی آف دی پنجاب سے 38ایکڑ زرعی زمین حاصل کرچکی ہے جو کہ آلودگی میں اضافے اور خوراک کی پیداوار میں کمی کی جانب ایک اور قدم ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ سینکڑوں پرندے شہر سے نقل مکانی کرچکے ہیں اور کوئی بھی ایسا نہیں جو یہ سوچے کہ لاہور میں پرندے تیزی سے کم ہورہے ہیں کیوں کہ شہر میں درختوں کی کٹائی جاری ہے۔
ایک اور ماہرِ ماحولیات سید محمد ابوبکر نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ لاہور میں آلودگی کی شرح امریکہ کی انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کی حد سے 14گنا زیادہ ہے اور اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق پاکستان میں جنگلوں کی کٹائی کی شرح 2.1فی صد ہے جو کہ تشویش ناک ہے اور یہ تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here