میں ہمیشہ سے سوچتی تھی کہ میرے جیسے جو دوسرے لوگ ہیں ان کی زندگی کیسی ہوگی ، کیا وہ بھی میرے جیسی ہی زندگی بسر کرتے ہوں گے، وہ کیا سوچتے ہوں گے ،کبھی کہیں بازار میں تو کبھی کسی گیدرنگ میں مجھے لوگ ملتے اور کہتے کیا آپکی کو ئی بہن فلاں جگہ کا م کرتی ہے یا فلاں جگہ رہتی ہے تو میں پہلے تو انہیں حیران ہو کر دیکھتی پھر ان کو اپنے بہن بھائیوں کی تعداد اورپھر ان کو یقین دلانے والے انداز میں کہتی کہ وہ میرے جیسے نہیں ہیں وہ آپ جیسے ہیں۔
پھر وہ دن بھی آہی گیا ، جب میری ملاقات میرے جیسے لوگوں سے ہوئی، جن کے بارے میں لوگ مجھ سے پوچھتے تھےمیں نے بھی انہیں دیکھ ہی لیااور جان بھی لیا،ایک دن شام میں مجھے منیبہ مزاری کی پروڈیوسر جو میری کولیگ بھی رہ چکی ہیں تحسین مظہر کی کال آئی اور انہوں نے مجھےاپنے شو میں مدعو کیا ، انہوں نے مجھے کہا کہ اس شو میں آپ نے اپنی زندگی کی تلخ حقیقت سے لے کر کامیابی تک کے سفر کی داستان سنانی ہے میں نے ان سے اوکے کیا ۔پہلی دفعہ میں مجھے لگا کہ اس شو میں میرے علاوہ شاید کوئی ایک اور گیسٹ ہوں جو کسی اور جسمانی معذوری کے باوجود اپنی زندگی کوکامیابی سے چلا رہے ہیں ، جس کو ہماری سوسائٹی میں انسنگ ہیرو کہتے ہیں ۔اس شو سے کچھ عرصہ قبل ملک کے نامور ریڈیو اسٹیشن کے آر جے محسن نواز صاحب نے مجھے اپنے شو میں بلایا جہاں ہم نے معاشرتی رویوں پر بات چیت کی ، جہاں انہوں نے مجھ سے سوال کئے کہ میں نے کس طرح معاشرتی رویوں کا سامنا کیا اور اس پر کیسے قابو پایا کیونکہ میری پرورش مثبت رویوں پر مشتمل تھی ، جہاں تعلیم کیساتھ میری پرسنلیٹی کو پر اعتماد اور صلاحیتوں کو اجاگر کیا گیا، جس کی وجہ سے جب مجھے گھر سے باہر اگر منفی رویے نظر بھی آتے تو میں ان کو اپنی شخصیت پر اثر انداز ہونے نہیں دیتی تھی ،میری تربیت میں ایک خاص بات یہ رہی کہ میرے والدین نے میرے ساتھ رویہ عام بچوں کی طرح ہی رکھا جیسے وہ اپنے باقی بچوں کیساتھ سختی اور نرمی رکھتے تھے ویسا ہی کچھ میرے ساتھ تھاچونکہ انہوں نے ہمیشہ مثبت رویوں کو ترجیح دی اسی طرح میرے سمیت میر ے باقی بہن بھائیوں میں بھی وہی عنصر موجودہے،
ہاں اس سب کے باوجود بھی میں خاص تھی ، اس لحاظ سے میں نے شو میں جہاں معاشرتی رویے کو بدلنے کی بات کی وہیںمیں نے اپنے جیسے لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے پر بھی زور دیا ۔جس دن میں نے ریڈیو شو کیا اسی رات میرے فیسبک میسنجر پر مجھے منزہ الطاف نامی لڑکی نے رابطہ کیا اور سلام دعا کہ فورا بعد اس نے مجھے بتادیا کہ وہ میرے جیسی ہے،جس کے بعد اس نے میرے کانفیڈنس کی تعریف کی اور بتایا کہ میرے میں کانفیڈنس نہیں ہے ،مجھے آپ سے بات کر کے بہت اچھا لگ رہا ہے ،جس پر میں نےاسے کہاکہ سب لوگ ایک جیسے ہوتے ہیں بس تھوڑا سا اپنی سکیلز کو پالش کرو سب ٹھیک ہوجائے گا، جس کے فوری بات اس نے کہا کہ معاشرہ ہمیں قبول نہیں کرتا اور نہ ہی عزت دیتاہے،ایک دم سچ کہا مگر اس کے باوجود میں نےاس کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی، جس کے بعد ہم نے ایک دوسرے سے نمبر شیئر کئے اور ایک دن مجھے اس کی کال آئی تو معلوم ہوا کہ منیبہ مزاری کے شو پراس کو بھی انوائیٹ کیا ہے ، جس کے بعد مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ شو ہم جیسے لوگوں کی زندگی پر رکھا گیا ہے ۔
آخر وہ دن بھی آن پہنچا ہمیں پروگرام کی ریکارڈ نگ کیلئے اسلام آباد جانا تھا جس کیلئے ہمیں پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی میسر تھی ، صبح 6 بجے مطلوبہ چینل کی بس نے مجھےاور میرے چھوٹے بھائی کوگھر سے پک کیا ،بس میں قدم رکھتے ہی میں ایک دم چونک گئی اور خاموشی سے جاکر پچھلی سیٹ پر براجمان ہوگئی ، کیونکہ میں اپنے جیسے لوگوں کو دیکھ چکی تھی ۔جس میں جاوید کوڈو صاحب اور ان کے صاحب زادے بھی موجود تھے ، میں نے آدھا راستہ بلکل بے تعلق ہو کر گزارا ،کیونکہ شاید میرے لئے ایسے لوگوں کو قبول کرنا کافی مشکل ہورہا تھا یا میں ان کو پہلے سے جانتی نہیں تھی، بس جو بھی تھا کچھ تھا ضرور جس کو میں لکھ کر اظہار نہیں کرسکتی، جیسے ہی بس بحرا رکی تو میں بھی فریش ہونے کیلئے بس سے نیچے اتر گئی اور وہاں میری ملاقات ناذیہ اینتھنی ، نسیم خالد اور سائمہ سے ہوئی جو مجھ سے بھی قد میں چھوٹی تھیں ،میرے او ر ان کے درمیان مختصر سا تعارف ہوا جس پر مجھے معلوم ہوا کہ ناذیہ نے صرف انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی کیونکہ گھر پر اس کی ضرورت تھی جس کے بعد تعلیم اور نوکری دونوں کو چھوڑ کر گھر کی حفاظت پر مامور ہوگئی ، نسیم نے تو اپنے بہن بھائیوں کی وجہ سے سکول کی شکل تک نہیں دیکھی کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ نسیم کو وہاں بچے اس کے چھوٹے قد کی وجہ سے تنگ کریں گے اور صائمہ گریجوایشن کرنے کے بعد کمپیوٹر کلرک کے طور پر منسٹری آف ایجوکیشن میں کام کرتی ہیں اور لِٹل پرسن کے نام سے آر گنائزیشن بھی چلاتی ہیں، جس کے چار مقاصد ہیں چھوٹے قد کے اسپیشل لوگوں کو فری ایجوکیشن ، نوکری کے بہتر مواقع ، ان کی شادی کیلئے بہتر رشتہ اور سرکاری ملازمتوں میں چھوٹے قد کے حامل افراد کا اسپیشل کوٹے میں منظور کروانا ہے ۔
اسلام آباد نیشنل لائیبریری پہنچے جہاں ساٹھ ستر کے قریب چھوٹے قد کے افراد موجود تھے وہاں ایک عجیب منظر تھا جو میں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا ۔وہاں جاتے ہی منزہ الطاف سے ملاقات ہوئی اور پروگرام کی ریکارڈنگ کے بعد باقی افراد سے ملاقات ہوئی اور مجھے بہت افسوس سے لکھنا پر رہا ہے کہ وہاں پر چھوٹے قد کے لوگوں میں اگر کوئی تعلیم یافتہ اور عزت دار نوکری رکھتے تھےتو وہ صرف چار لوگ جن میں قاسم ضیا نے ایم بی اے، میں سحر سعید ماسٹر ان ماس کمیونیکیشن ، منزہ الطاف ماسٹرز ان ماس کمیونیکیشن اور صائمہ نے گریجویٹس کیا ہوا تھا جبکہ مجھے بہت افسوس کیساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ معاشرتی رویوں کی وجہ سے کچھ تو سکول سے ہی بھاگ گئے جبکہ کچھ سکول جا ہی نہیں سکے ۔
بس ان کے پاس کچھ شکوے تھےکہ لوگ ہماری عزت نہیں کرتے ، سوسائٹی ہمارے وجود کو ماننے کو تیار نہیں ، ہمارا مذاق اڑایا جاتا ہے ،ہمیں تضحیک کا نشانہ بنا یا جاتا ، سوسائٹی میں ہمیں بونا ، چھوٹو جیسے القابات سے نوازتی ہے اور ہم پر ہنس کر پتہ نہیں کونسی تسکین حاصل کرتی ہے اس بات سے بالکل بے خبرکہ ہمارےپر کیسی قیامت گزر جاتی ہے ، یہ سوچتے رہتے ہیں قصوروار کون ہیں ہم یا ہمیں بنانے والا یا یہ معاشرہ جس کا ہم بدقسمتی سے حصہ ہیں ،ہم اپنے آپ سے نفرت نہ کرنے کے باوجود نفرت کرنے لگتے ہیں ، اپنی ذات سے اس گناہ کا شکوہ کرتے ہیں جس کا معاشرہ ہمیں دیکھ کر قصورار ٹھہراتی ہے اور زندگی میں کچھ کرنے کے وہ تمام مقاصد بے جان ہونے لگتے ہیں اور پھر اس معاشرے کی تنگ دلی سے بچنے کیلئے کبھی سکول سے بھاگتے ہیں تو کبھی اپنا راستہ ہی بدل جاتے ہیں ۔
مگر اس سب کے باوجود مجھے اپنے جیسے لوگوں سے گلا ہے کہ کیوں وہ اس نفسیاتی مرض میں مبتلا معاشرےکے کچھ افراد کا مقابلہ نہیں کرسکے جو لوگ اللہ کی بنائی گئی مخلوق کو ذہنی طور پر تسلیم نہیں کررہے ان کی ذہنی حالت کا اندازہ تو ان کے رویے سے ہی لگا لینا چاہئے ، بدقسمتی سے مسئلہ ہمارے ساتھ نہیں ان کیساتھ ہے ، یہ کیا ہم پر ترس کھائیں گے ہمیں ان پر ترس کھانا چاہئے ۔یاد رکھیں معاشرے میں تمام لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے اچھے لوگ بھی موجود ہیں جو کھرے اور کھوٹے کی پہچان رکھتے ہیں ، جوہماری عزت کرنا جانتے ہیں ، جو ہمیں ویلیو کرتے ہیں ، میری زندگی میں بھی تلخ حقیقتیں موجود رہی مگر ہمیشہ میں نے مثبت رویوں کو اپنے پر اثرانداز ہونے دیا بس ہمارا کام ہے معاشرے کے ان چند شیطان صفت افراد کو نظر انداز اور اچھے افرادکوتلاش کریں ۔ہمیں تو اللہ سے شکوہ کی بجائے اس کا شکر گزار ہونا چاہئے جس نے ہمیں مکمل بنایاہم میں کسی بھی قسم کی جسمانی معذوری نہیں ہے ہم اپنے تمام کام خود کرسکتے ہیں ، خداوند تعالیٰ نے ہمیںان خوبیوں سے نوازا ہےجو عام انسان میں نہیں ہیں بس ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ان کو تلاش کریں اور ان کو اپنی زندگی میں اپنائے جانتے ہیں یہ سب کیسے پتہ چلے گا تعلیم ، تعلیم اور صرف تعلیم ۔ چاہے کچھ بھی ہوجائے اپنی تعلیم کو مکمل کریں تعلیم ہمیں شعوردیتی ہے ہم نے کیا کرنا ہے ؟ کیسے کرنا ہے؟ یہ آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا ۔
Heart touching truth … we’re proud of you sehr ❤
Amazing as always … we’re proud of you Sahar!
wow that’s great efforts