جماعت الدعوۃ اور فلاح ِ انسانیت فائونڈیشن پر پابندی صرف میڈیا تک محدود

0
1466

JuD-and-FIF-are-banned-on-media-onlyلاہور ( دردانہ نجم سے) لاہور کی سندر انڈسٹریل سٹیٹ میں چار نومبر 2015ء کو منہدم ہونے والی عمارت کے اطراف میں جماعت الدعوۃ کے فلاحی ونگ فلاحِ انسانیت فائونڈیشن کے رضاکارفعال انداز میں فوج اور ریسکیو 1122کے ساتھ مل کرامدادی سرگرمیاں انجام دے رہے تھے۔ جناح ہسپتال کے باہر فلاحِ انسانیت فائونڈیشن نے ایک مددگار ڈیسک بھی قائم کر رکھا تھا تاکہ متاثرین کے خاندانوں کی ان کے زخمی ہونے یا وفات پاجانے والے رشتہ داروں کی تلاش میں مدد کی جاسکے۔ فلاح ِ انسانیت فائونڈیشن کے رضاکار ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں کو کھانا اور پانی تک فراہم کر رہے تھے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہورہا تھا جب پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے الیکٹرانک میڈیا کو جماعت الدعوۃ اور فلاحِ انسانیت فائونڈیشن کی سرگرمیوں کی کسی بھی قسم کی کوریج سے روک دیا گیا ہے جو عالمی ضابطوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے کیوں کہ ان تنظیموں پر پابندی عاید کی گئی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ایساکوئی حکم نامہ جاری کیا گیا ہے تو اس سے حکومت کی ان مذہبی تنظیموں کی سرگرمیوں کی روک تھام کے حوالے سے غیر سنجیدگی ظاہرہوتی ہے جو نظریاتی طور پر دہشت گردی کی جانب جھکائو رکھتی ہیں لیکن حقیقت میں یہ صرف نظر کا دھوکہ ہے۔
معروف تجزیہ کار زاہد حسین، جن کی کتاب Scorpion Tailپاکستان میں عسکریت پسندی پر مستندترین خیال کی جاتی ہے، جماعت الدعوۃ کی میڈیا کوریج پر پابندی کو امید افزا خیال نہیں کرتے۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نوعیت کے اقدامات سے عوام میں مذکورہ تنظیم کے لئے ہمدردی کے جذبات میں مزید اضافہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا:’’ اگر جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کے نمازِ جمعہ کے خطبات ریاست اور انڈیا مخالف ہوتے ہیں، اگر ان کی تنظیم پر کشمیر کے حق میں ریلیاں نکالنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، اگر ان کے مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب سے شدت پسندی کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور اگر وہ لشکرِ طیبہ کے ذریعے نام نہاد جہادِ کشمیر میں سرگرم رہتے ہیں تو صرف ان پر اور ان کی تنظیم کی میڈیا کوریج پر پابندی سے کچھ حاصل ہونا بعید از قیاس ہے۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو جماعت الدعوۃ اور اس سے منسلک تنظیموں کی سرگرمیوں پر یا تو ان کے جہادی ایجنڈے پریا پھر ان کے نظام میں شفافیت پیدا کرکے، جو انتہاپسند نظریات کے فروغ میں معاون ثابت ہوتی ہے، مکمل پابندی عاید کرنے کی ضرورت ہے۔
 ایسا پہلی بار نہیں ہوا جب پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے نجی ٹی وی چینلوں کو یہ ہدایت نامہ جاری کیا ہے کہ وہ کالعدم تنظیموں کی کوریج نہ کریں۔ 2001ء کے بعد سے اس نوعیت کی مختلف فہرستیں چینلوں کے حوالے کی جاتی رہی ہیں تاکہ غیرقانونی قرار دی گئی تنظیمیں ٹی وی پر اپنے نقطۂ نظر کا اظہار نہ کر پائیں۔
قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستانی قانون کے تحت میڈیا پر یہ پابندی عاید ہوتی ہے کہ وہ کالعدم تنظیموں اور بالخصوص طالبان عسکریت پسندوں کے نقطۂ نظر کو فروغ دینے سے گریز کرے۔
انسدادِ دہشت ایکٹ 1997ء کی شق 11(W) نفرت کے فروغ پر مبنی مواد کی اشاعت اور اس کی تقسیم کے علاوہ کسی بھی ایسے شخص کی کوریج پر پابندی عاید کرتا ہے جو دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث رہا ہو۔ اس قانون کے تحت چھ ماہ تک کی سزا ہوسکتی ہے۔ رواں برس جولائی کے اوائل میں ہی حکومت کی جانب سے یہ وضاحت کر دی گئی تھی کہ جماعت الدعوۃ پر پابندی عاید نہیں کی جائے گی کیوں کہ اس کا دہشت گرد گروہ لشکرِ طیبہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جب وفاقی وزیرِ اطلاعات سے یہ استفسار کیا گیا کہ حکومت کو جماعت الدعوۃ پر پابندی عاید کرنے میں اس قدر طویل عرصہ کیوں کر لگا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سالمیت اور بقا کے لیے ضرررساں عوامل کے خلاف بتدریج اقدامات کرنا ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پر عالمی دبائو ہے اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت حکومت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1267کی دستخط کنندہ ہے جس کے تحت جماعت الدعوۃ پر پابندی عاید کی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ وزیراطلاعات کے طورپر مجھے یہ کہنے میںکوئی عار نہیں ہے کہ ہم نے عالمی اتفاقِ رائے پر اس کی روح سے عمل کرتے ہوئے جماعت الدعوۃ اور اس سے منسلک تنظیموں کی میڈیا کوریج پر پابندی عاید کی ہے۔‘‘
جب اُن سے یہ سوال کیا گیا کہ حکومت جماعت الدعوۃ کی سرگرمیوں پر مکمل طور پر پابندی کرتے ہوئے کیوں کر اس کے مدارس بند نہیں کردیتی تو پرویز رشید نے یہ کہتے ہوئے حکومت کی کالعدم مذہبی تنظیموں کے حوالے سے پالیسی کو بے نقاب کیا کہ اس بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنا وزارتِ داخلہ کی ذمہ داری ہے۔
یہ اَمر باعثِ حیرت ہے کہ حکومت قومی ایکشن پلان کے نفاذ میں سنجیدہ بھی ہے یا صرف بے دلی سے عملدرآمد کر رہی ہے۔ اس حکمتِ عملی کے باعث ہی دہشت گردوں کے نظریات کے تدارک کے لیے حکومت کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق پنجاب میں بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہونے والے تقریباً پانچ سو امیدواروں کو کالعدم تنظیموں کی حمایت حاصل تھی۔ اگر اس سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سکروٹنی کے طریقۂ کار کے حوالے سے سوالات پیدا ہوتے ہیں تو اس سے یہ بھی ظاہرہوتا ہے کہ حکومت کالعدم تنظیموں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔
پشاور آرمی سکول میں ہونے والے قتلِ عام تک پاکستان جماعت الدعوۃ کو ان تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار تھا جن پر پابندی عاید ہے۔ پاکستان کی مختلف حکومتوں پر عالمی سطح پر یہ الزامات عاید کیے جاتے رہے ہیں کہ وہ ’’اچھے‘‘ اور ’’بُرے‘‘ طالبان کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور سکیورٹی تجزیہ کاروں کے مطابق حقانی نیٹ ورک اور جماعت الدعوۃ کی طرز کی تنظیموں کو پاکستان میں کھلی چھوٹ دے دی گئی تاکہ وہ افغانستان میں دشمن تصور کیے جانے والے ممالک بھارت اور امریکہ کے خلاف کارروائیاں کرسکیں۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے 2008ء میں قرارداد 1267کے تحت جماعت الدعوۃ پر پابندی عاید کر دی تھی، یہ قرارداد 15اکتوبر 1999ء میں اختیار کی گئی ’’ جو القاعدہ اور اس کے حامیوں اور تنظیموں‘‘ پر پابندی سے متعلق تھی۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے جماعت الدعوۃ پرلشکرِ طیبہ کا اتحادی ہونے کے باعث پابندی عاید کی جس کے القاعدہ اور طالبان سے گہرے روابط ہیں۔ پاکستان نے جماعت الدعوۃ کی ایس آر و بتاریخ 15نومبر 2003ء کے تحت نگرانی شروع کردی۔ 2008-2010ء کے دوران تنظیم کے تمام دفاتر بند کر دیے گئے لیکن لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر بالآخر یہ پابندی ہٹالی گئی۔
معروف سکیورٹی تجزیہ کاربریگیڈیئر (ر) فاروق حمید نے نیوز لینز پاکستان سے حافظ سعید اور ان کی پاکستان سے مطابقت کے بارے میں بات کی اور کہا کہ حافظ سعید کے مسئلہ کشمیر پر مؤقف کے باعث انہوں نے اہلِ پاکستان کے دل جیت لیے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جماعت الدعوۃ اور فلاحِ انسانیت فائونڈیشن اپنی فلاحی سرگرمیوں کے باعث عوام میں ہر دلعزیز ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان نے جماعت الدعوۃ پر اس لیے پابندی عاید نہیں کی کیوں کہ یہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے صرف امریکہ اور اقوامِ متحدہ کے تحفظات دور کیے ہیں۔
بریگیڈیئر (ر) فاروق حمید نے کہا:’’ میرا نہیں خیال کہ جماعت الدعوۃ پر پابندی عاید کی جانی چاہئے۔ ہم امریکہ اور اقوامِ متحدہ کے نقطۂ نظر کی کیوں کر حمایت کریں جو بھارت کی جانب جھکائو رکھتا ہے؟ میں حافظ سعید کے انڈیا مخالف نقطۂ نظر اور کشمیر کے مسلمانوں کی حمایت پر ان کے ساتھ ہوں‘ میرے اس نقطۂ نظر کو مودی کی پاکستان اور مسلمان مخالف فکر اور بی جے پی کے عسکری ونگ شیو سینا کی سرگرمیوںسے بھی تقویت حاصل ہوتی ہے۔ حکومت شاید تنظیم پر پابندی عاید کرچکی ہے لیکن کبھی کسی شخص یا عدالت کی جانب سے حافظ سعید پر کوئی الزام عاید نہیں کیا گیا۔‘‘
جماعت الدعوۃ اور اس کے فلاحی ونگ فلاحِ انسانیت فائونڈیشن کو پاکستان بھر میں زبردست قبولِ عام حاصل ہوچکا ہے۔ تنظیم کے تحت پانچ ہسپتال، دو سو ڈسپنسریاں، ایمبولینسوں کی ایک بڑی تعداد اور 250سکول منتظم کیے جارہے ہیں۔کشمیر اور شمالی علاقوں میں 2005ء میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے دوران یہ جماعت الدعوۃ ہی تھی جو ان دشوار گزار علاقوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے متاثرہ مقام پر بروقت پہنچی تھی۔
جماعتِ اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری فریدپراچہ کہتے ہیں کہ نیٹو بھی تمام تر ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود وقت پر نہیں پہنچ سکتی۔ انہوں نے پاکستانی حکومت کی جماعت الدعوۃ کی فلاحی سرگرمیوں کی میڈیا کوریج پر پابندی کی مذمت کی اور کہا کہ جماعت الدعوۃ کا لشکرِ طیبہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا کہ یہ ایک لایعنی سا دعویٰ ہے کہ لشکرِ طیبہ، جماعت الدعوۃ کا حصہ نہیں ہے۔ عسکریت پسند سرگرمیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے فلاحی سرگرمیاں انجام دینے سے حقیقت پر پردہ نہیں پڑجاتا۔
جماعت الدعوۃ کے ترجمان ندیم احمد نے اپنے دفاع میں کہا کہ حکومت نے انڈیا اور امریکہ کے دبائو پر جماعت الدعوۃ پر پابندی عاید کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ پاکستان میں تنظیم کے خلاف کوئی ایک ایف آئی آر تک درج نہیں ہے۔ ہم ریاست کی فلاح کے لیے کام کر رہے ہیں اور کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جو غیر قانونی و غیر آئینی ہو۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here